اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے امریکی خاتون کی موت، خاندان کا تحقیقات کا مطالبہ

عائشہ نور ایزگے کے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہا: ’ہم صدر (جو) بائیڈن، نائب صدر (کملا) ہیرس اور وزیر خارجہ (اینٹنی) بلنکن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک امریکی شہری کے غیر قانونی قتل کی آزادانہ تحقیقات کا حکم دیں اورقصورواروں کے مکمل احتساب کو یقینی بنائیں۔‘

چھ ستمبر 2024 کو عائشہ نور ایزگے کے اہل خانہ کی جانب سے فراہم کی گئی ان کی ایک تصویر۔ عائشہ نور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کے خلاف مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے چل بسی تھیں (اے پی)

مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودیوں کی آبادکاری میں توسیع کے خلاف مظاہرے کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں جان سے جانے والی ترک نژاد امریکی خاتون عائشہ نور ایزگے کے اہل خانہ اور اقوام متحدہ نے ہفتے کو ان کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

26 سالہ عائشہ نور ایزگے کو جمعے (چھ ستمبر) کو مغربی کنارے میں ایک مظاہرے میں شرکت کے دوران ’سر میں گولی مار دی گئی تھی۔‘

ان کے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہا: ’اسرائیلی فوج نے انہیں (عائشہ نور کو) ہماری زندگیوں سے بلاوجہ، غیر قانونی اور پرتشدد طریقے سے نکال دیا ہے۔‘

مزید کہا گیا: ’امریکی شہری عائشہ نور پر امن طریقے سے انصاف کے لیے کھڑی تھیں، جب وہ گولی لگنے سے چل بسیں اور واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولی اسرائیلی فوج کی جانب سے چلائی گئی تھی۔

’ہم صدر (جو) بائیڈن، نائب صدر (کملا) ہیرس اور وزیر خارجہ (اینٹنی) بلنکن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک امریکی شہری کے غیر قانونی قتل کی آزادانہ تحقیقات کا حکم دیں اور قصورواروں کے مکمل احتساب کو یقینی بنائیں۔‘

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے بھی عائشہ نور کے قتل کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔

چھ ستمبر کو پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’ہم یقیناً حالات کی مکمل تحقیقات دیکھنا چاہتے ہیں اور لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: ’اور شہریوں کو ہر وقت تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔‘

تاہم اسرائیلی فوج نے اس واقعے کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کی فورسز نے احتجاج کے دوران ’پرتشدد سرگرمی کے لیے اکسانے والے ایک فرد کو جوابی کارروائی میں گولی ماری، جس نے فورسز پر پتھراؤ کیا اور ان کے لیے خطرہ بنا۔‘

ایکس پر اپنے بیان میں اس کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیلی ڈیفنس فورسز ان رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہیں، جن کے مطابق ایک غیر ملکی شہری کی علاقے میں فائرنگ کے نتیجے میں موت ہوئی۔‘

مزید کہا گیا کہ ’واقعے کی تفصیلات اور جن حالات میں خاتون کو گولی لگی، اس حوالے سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘

عائشہ نور فلسطین کی حامی تنظیم انٹرنیشنل سولیڈیریٹی موومنٹ (آئی ایس ایم) کی رکن تھیں، جس کے مطابق جمعے کو وہ یہودی بستیوں کے خلاف ہفتہ وار مظاہرے کے لیے موجود تھیں۔

حالیہ برسوں میں فلسطین کے حامی مظاہرین نے ایویاتر بستی کی چوکی کے خلاف بیشتر ہفتہ وار احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر اور رفیدیہ ہسپتال کے مطابق عائشہ نور کو سر میں گولی ماری گئی تھی۔

ترکی نے بھی کہا ہے کہ عائشہ نور کو ’اسرائیلی قابض فوجیوں‘ نے قتل کیا، جبکہ صدر رجب طیب اردوغان نے اسرائیلی کارروائی کو ’وحشیانہ‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔

امریکہ نے بھی اسے ایک ’افسوس ناک‘ واقعہ قرار دے کر اپنے قریبی اتحادی اسرائیل پر تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔

تاہم مقتولہ کے اہل خانہ نے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اہل خانہ کے مطابق: ’عائشہ نور کے قتل کے حالات کو دیکھتے ہوئے، اسرائیلی تحقیقات کافی نہیں ہیں۔‘

مزید کہا گیا کہ عائشہ نے ہمیشہ ’فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے‘ کی وکالت کی ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی فوجیوں یا آبادکاروں کے ہاتھوں مقبوضہ مغربی کنارے میں 690 سے زیادہ فلسطینیوں کی اموات ہوئی ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی حکام کے مطابق اسی عرصے کے دوران فلسطینیوں کے ہاتھوں سکیورٹی فورسز سمیت کم از کم 23 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا