کارمل گیٹ اپنی ماں سے ملنے كيبوتس بئيری آئی تھیں۔ سات اکتوبر کو انہیں حماس کے عسکریت پسندوں نے قید کر لیا۔
تل ابیب کی رہائشی 40 سالہ خاتون کو ایک مہینے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان پہلی فائر بندی معاہدے کے تحت رہا کیا جانا تھا لیکن اسی دن فائر بندی ختم ہو گئی جس دن ان کی رہائی متوقع تھی۔
کارمل طب کے پیشے سے وابستہ تھیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کا نام حماس کے تیارہ کردہ تازہ ترین نئے معاہدے کے مسودے کے تحت بنائی گئی فہرست میں دوبارہ شامل کیا گیا۔ اسرائیلی قیدیوں کے خاندان، زیادہ تر اسرائیلی عوام اور بین الاقوامی برادری کو امید تھی کہ حالیہ ہفتوں میں اس معاہدے پر پیشرفت ہو گی۔ خاتون کے خاندان والے جن کا حوصلہ دن بدن جواب دے رہا تھا ان کا چند روز قبل تک ماننا تھا کہ وہ 10 ماہ سے زیادہ کی سخت قید کے بعد بھی زندہ ہیں۔
ان کے خاندان نے اسرائیلی حکومت پر زور ڈالا کہ کوئی معاہدہ کیا جائے تاکہ کارمل کو محفوظ طریقے سے واپس لایا جا سکے۔ درحقیقت خاندان کے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ 48 گھنٹے پہلے تک زندہ تھیں، جب تک کہ اسرائیلی فوج نے ان کی اور پانچ دیگر قیدیوں کی لاشیں غزہ کے جنوب میں واقع ایک سرنگ سے برآمد نہیں کر لیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ کارمل اور پانچ دیگر قیدیوں، جن میں ایک 23 سالہ اسرائیلی نژاد امریکی شہری ہرش گولڈبرگ پولن بھی شامل ہیں، کو حماس کے عسکریت پسندوں نے گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا قبل اس کے کہ اسرائیلی فوج انہیں بچا لیتی۔
کارمل کے کزن گِل ڈک مین نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ’یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ہم اتنے قریب تھے اور پھربھی انہیں بچانے میں ناکام رہے۔ اور جب میں کہتا ہوں ’قریب‘ تھے تو میرا اس سے مطلب یہ نہیں کہ فوجیوں نے انہیں بچا ہی لیا تھا بلکہ میرا مطلب ہے کہ ہم فائر بندی معاہدے کے ذریعے ان کی رہائی کے قریب تھے۔
’میرے لیے یہ دیکھنا کہ تقریباً 11 ماہ کی جنگ کے بعد بھی ایسا ہو سکتا ہے، ایک ایسی بات ہے جو مجھے افسردہ اور خوفزدہ کرتی ہے۔ اس سے میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔‘
ڈک مین نے غزہ سے چھ قیدیوں کی لاشیں برآمد ہونے کے چند ہفتے قبل ہی دی انڈپینڈنٹ سے بات کی۔
بعد ازاں انہوں نے معاہدے کے تازہ ترین مسودے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسے ان کی کزن کو زندہ واپس لانے کا ’آخری موقع‘ قرار دیا۔
ڈک مین اور خاندان کے دوسرے لوگ حماس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت، خاص طور پر وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو، کو بھی اس معاہدے کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جس میں ایسی شرائط شامل تھیں جنہیں حماس قبول نہیں کر سکی۔
ان شرائط میں یہ بھی شامل تھا کہ اسرائیلی فوجی نام نہاد فلاڈیلفی راہداری میں موجود رہیں گے۔ یہ راہداری مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی علاقہ ہے۔
اب ڈک مین کو امید ہے کہ کارمل کی موت آخری ثابت ہو گی۔ ان کی خواہش ہے کہ اس کے بعد تبدیلی آئے۔
’مجھے واقعے امید ہے کہ یہ اہم موڑ ثابت ہو گا۔ اسرائیلی عوام کو احساس ہے کہ ہم یہ صورت حال مزید برداشت نہیں کر سکتے اور یہ کہ اسرائیلی حکومت سمجھتی ہے کہ ہمیں اس معاہدے پر فوری طور پر دسخط کرنے ہوں گے۔
’دوسرے 101 قیدیوں کے معاملے میں زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت موقع ہے۔‘
گذشتہ دو دن میں ہزاروں اسرائیلی شہری فائر بندی کے معاہدے کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اسرائیل کی سب سے بڑی یونین نے بھی ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا جس سے بن گوریان ہوائی اڈے سمیت بینکاری، صحت، اور پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں عارضی خلل پڑا یا وہ بند ہو گئے۔
اسرائیلی دفاعی رپورٹر اور ماہر آموس ہیرل نے کہا کہ بہت عرصے کے بعد سڑکوں پر انتہائی جذباتی ماحول ہے یعنی حقیقی ’اشتعال‘ کی کیفیت ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات چیت میں کہا: ’یہ چھ قیدی بہت معروف تھے۔ اسرائیل میں ہر دوسرا شخص جانتا تھا کہ وہ کون ہیں۔‘
ہرش کے خاندان نے بھی قیدیوں کی رہائی کے لیے بڑی مہم چلائی جس میں امریکی صدر جو بائیڈن، پوپ فرانسس سے ملاقاتیں اور گذشتہ ماہ ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے خطاب شامل ہے۔
کرمل گیٹ کے خاندان نے امریکی کانگریس میں احتجاج کیا اور اسرائیلی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔
ہیرل نے مزید کہا کہ ’عوام کی بڑی تعداد معاہدے کے حق میں ہے۔ وہ بڑی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔‘
لیکن اب شاید بڑے پیمانے پر حمایت بھی کافی نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی اہم موڑ نہ آیا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک گیر احتجاج اور ہڑتالوں کا سامنا کرنے کے باوجود، اپنے قریبی حلیف بائیڈن کی تنقید کے باوجود جنہوں نے کہا کہ انہوں نے فائر بندی کے معاہدے کے لیے ضروری کام نہیں کیا، اسرائیلی میڈیا میں نتن یاہو کی سکیورٹی کے اندرونی حلقوں کی تنقید کی اطلاعات شائع ہونے کے باوجود اور ایک پریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا وہ اپنی غلطی کی سنگینی کو سمجھتے ہیں؟‘ کے باوجود پیر کو وزیر اعظم نتن یاہو اپنی جگہ ڈٹے رہے۔
اگرچہ نتن یاہو دباؤ کا شکار دکھائی دیے لیکن وہ فائر بندی کے لیے اپنی شرائط پر پوری طرح ڈٹے رہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ اسرائیل نام نہاد فلاڈیلفی راہداری پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا۔
انہوں نے زور دے کر کہا: ’میں اس دباؤ کے سامنے نہیں جھکوں گا۔ ہماری قوم اس دباؤ میں نہیں آئے گی۔ میں (حماس کے رہنما) سنوار سے کہتا ہوں کہ وہ بھول جائیں۔ ایسا نہیں ہو گا۔‘
انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہ معاہدے کے عالمی دباؤ کا مرکز حماس ہونی چاہیے اسرائیل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے ہمارا قتل عام کیا، اس کے بعد ہتھیار ڈالنا؟ یہ قطعاً نہیں ہو سکتا۔‘
جہاں تک قیدیوں کے خاندانوں کا تعلق ہے حتیٰ کہ ان قیدیوں کے خاندانوں جن کے قیدیوں کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے، انہوں نے دباؤ میں اضافے، نتن یاہو کو باور کروانے اور قیدیوں کو واپس لانے کی کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ڈک مین نے مزید کہا کہ ’ہم کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے کیوں میں کہہ سکتا کہ یہ بہت تکلیف دہ احساس ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا تھا اور وہ نہیں کر سکے جو کرنا چاہیے تھا۔‘
’میں نہیں چاہتا کہ مزید خاندان ایسا محسوس کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ ہم وہ کچھ کریں جو کر سکتے ہیں تاکہ (باقی ماندہ) قیدیوں کی جان بچائی جا سکے اور شائد بعض وہ کام جو ہم کریں گے ان کا نتن یاہو پر اثر ہو گا۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent