افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا حسن اخوند اور ترکمانستان کے گربنگولی بردی محمدوف کی موجودگی میں بدھ کو ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا (تاپی) گیس پائپ لائن اور تیل و گیس، توانائی اور ٹرانسپورٹ پر مشتمل دیگر ترقیاتی منصوبوں کا ہرات میں باضابطہ افتتاح ہو گیا۔
خبر رساں ایجنسی بی این اے کے مطابق ملا محمد حسن اخوند نے کہا کہ آج وہ دن ہے جس کا کئی سالوں سے انتظار تھا اور دونوں ممالک کے عوام کے بہت سے مسائل اور مصائب کے بعد آج ان عظیم منصوبوں کا افتتاح ہوا ہے۔
انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ ان منصوبوں کو دیانت داری، خلوص اور ہر قسم کی مصائب کے ساتھ مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
اس موقعے پر ترکمانستان کے صدر نے حکام کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب میں چیمبر آف کامرس اور وزارت پیڑولیم سمیت متعلقہ اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
تاپی منصوبے کو پاکستان سمیت انڈیا میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے جبکہ افغانستان سے گزرنے کی وجہ سے کابل کو بھی اس کا معاشی فائدہ ملے گا۔
تاپی منصوبہ کیا ہے اور پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے؟
ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے اس مشترکہ توانائی کے منصوبے کو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی طرف سے فنڈ کیا جا رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب اے ڈی بی کی دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے تحت اگلے 30 سالوں کے لیے 33 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان اور انڈیا کو سپلائی کی جائے گی۔
یہ واضح نہیں کہ آیا پاکستان بھی اس تقریب میں شریک ہے یا نہیں۔
تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت 1800 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی، جس میں منصوبے میں شریک تمام ممالک کی سرکاری گیس کمپنیاں بھی مدد کریں گی۔
امریکہ کے جیم سٹون فاؤنڈیشن کیو یب سائٹ پر شائع ہونے والے تاپی منصوبے کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اس منصوبے کے آغاز کی خبریں 1990 میں سامنے آئی تھیں لیکن اس کے لیے کنسورشیم 2014 میں بنایا گیا تھا۔
منصوبے کے تحت ترکمانستان کی گالکینیش گیس فیلڈ سے قدرتی گیس براستہ افغانستان و پاکستان، انڈیا پہنچائی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس منصوبے کے دستاویزی مواد کی تیاری پر کام اے ڈی بی نے 2002 میں شروع کیا تھا اور اس کا پہلا مرحلہ 2010 میں پائپ لائن کے فریم ورک معاہدےکے بعد مکمل ہوگیا۔
اسی طرح اے ڈی بی کی دستاویزات کے مطابق 2012 میں دوسرے مرحلے میں خریداری کا معاہدہ کیا گیا جبکہ تیسرے مرحلے میں منصوبے میں شامل ممالک کے مابین وزارتوں کی سطح پر نشستیں اور چوتھے مرحلے میں اب اس پر کام کا آغاز ہوگا۔
اس منصوبے کے ڈیزائن کے حوالے سے پاکستان میں 2017 میں ایک افتتاحی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں افغانستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
اس منصوبے کی پاکستان کے لیے اہمیت کے حوالے سے اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بتایا تھا کہ 56 انچ پائپ لائن کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر تین ارب کیوبک فٹ گیس پاکستان اور پاکستان انڈیا سرحد تک پہنچے گی۔
شاہد خاقان عباسی نے بتایا تھا: ’ابھی ہم پاکستان میں گیس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مائع قدرتی گیس برآمد کرتے ہیں لیکن اس منصوبے کے بعد پاکستان کے پاس گیس ضرورت سے زیادہ ہوگی یعنی سرپلس ہوگی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ منصوبے کے تحت پاکستان کو مجموعی گیس کا روزانہ ایک تہائی حصہ ملے گا، جو تقریباً 1.25 ارب کیوبک فٹ ہوگا جبکہ افغانستان کو 0.5 ارب کیوبک فٹ گیس ملے گی۔
معاشی ماہرین منصوبے کے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
سجاد احمد جان پشاور یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے پروفیسر اور پولیٹیکل اکانومی اور ڈیولیپمنٹ اکنامکس کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ تاپی منصوبے کو شریک ممالک کے لیے ایک ’سرپرائز‘ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اگر ہم دنیا کے مختلف خطوں پر نظر دوڑائیں تو پوری دنیا گلوبلائزیشن، تجارت اور سافٹ بارڈرز کے اصول کی طرف جا رہی ہیں، جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کا تحاد آسیان ہے اور وہ ایک دوسرے سے تجارت کر رہے ہیں۔‘
پروفیسر سجاد خان نے مزید کہا: ’امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی اختلاف ضرور ہے لیکن ان کے مابین اربوں ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے اور اسی تناظر میں پاکستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تاپی جیسے منصوبے نہایت اہمت کے حامل ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اس قسم کے منصوبے شروع کرنا تمام ممالک کے مفاد میں ہوتے ہیں کیونکہ اس سے درآمدات و برآمدات میں آسانی ہو جاتی ہے۔
بقول سجاد جان: ’تاپی منصوبے میں تمام پڑوسی ممالک شامل کرنے چاہییں اور بظاہر اس سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا کیونکہ پاکستان منصوبے کے درمیان میں واقع ہے اور براستہ پاکستان ہی انڈیا تک پائپ لائن بچھائے جائے گی۔‘
اس منصوبے پر دوبارہ کام کے آغاز کی باتیں افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد شروع ہوئی تھیں اور 2022 میں افغان طالبان نے بتایا تھا کہ وہ منصوبے کی سکیورٹی پر 30 سکیورٹی اہلکار تعینات کریں گے۔
جیم سٹون فاؤنڈیشن کے مقالے کے مطابق روس نے 2023 میں اس منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا تاہم انڈیا کی جانب سے منصوبے پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا گیا، جس میں پائپ لائن کا پاکستان سے گزرنا بھی شامل تھا۔
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے نائب صدر اور پاکستان افغانستان تجارتی امور کے ماہر و صنعت کار شاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی اس منصوبے کی مختلف افتتاحی تقریبات ہوچکی ہیں اور اب دیکھتے ہیں کہ اس پر عملی کام شروع ہوتا ہے یا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ترکمانستان کے پاس گیس موجود ہے اور وہ پاکستان کو اپنا کوٹہ بھی دیتا ہے، چاہے ایل پی جی کی شکل میں ہو یا ڈیزل و پیٹرول کی شکل میں، لیکن ایسے منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔‘
بقول شاہد حسین: ’ازبکستان، افغانستان و پاکستان ریلوے منصوبہ بھی التوا کا شکار ہے اور تاجروں کو اطمینان تب ہی ہوتا ہے جب عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔‘
افغانستان کو کیا فائدہ ہوگا؟
افغانستان کی وزارت پیٹرولیم کے مطابق تاپی منصوبے سے ابتدا میں 400 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی اور اس سے ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا۔
پہلے 10 سالوں میں افغانستان کو منصوبے کے تحت 500 ملین کیوبک فٹ گیس ملے گی اور اگلے 10 سالوں میں ایک ارب کیوبک فٹ گیس جبکہ تیسری دہائی میں افغانستان کو ڈیڑھ ارب کیوبک فٹ گیس ملے گی، جس سے گیس سے چلنے والے صنعتوں کو فائدہ ملے گا۔
وزارت پیٹرولیم افغانستان کے مطابق اس منصوبے سے افغانستان کے مرکزی اور شمالی صوبوں کو گیس فراہمی کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔