پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن سے متعلق امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کے بیان پر کہا ہے کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔
جنوبی ایشیا کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے بدھ کو واشنگٹن ڈی سی میں وزارت خارجہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ ’اس پائپ لائن کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کے مقصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران اس بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان نے بارہا پاک ایران گیس پائپ لائن پر اپنے عزم کی تجدید کی ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن پر فیصلہ حکومت پاکستان کا اپنا فیصلہ ہو گا۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’یہ پائپ لائن پاکستان اپنے علاقے میں تعمیر کر رہا ہے، اس وقت پہلا نکتہ گیس پائپ لائن کی تعمیر ہے، ہم اس تعمیر کے لیے پر عزم ہیں۔‘
ڈونلڈ لو نے کمیٹی میں پوچھے گئے سوال پر کہا تھا کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فروری میں ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن کے 80 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر کی منظوری کے بعد ان کا ملک اس منصوبے کی تعمیر روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس منصوبے کا بنیادی مقصد درحقیقت ایران سے پاکستان اور ہمسایہ ملک انڈیا دونوں کو گیس کی فراہمی تھا لیکن ایران پر لگائی گئی بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ طویل عرصے سے تک تعطل کا شکار ہے۔
امریکہ نے شروع سے ہی اس کی مخالفت کی تھی اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر پاکستان نے اس پر عمل کیا تو اسے مالی جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈونلڈ لو نے کہا کہ ’میں اس پائپ لائن کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ ہم اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
پاکستان کی وزارت توانائی کے پٹرولیم ڈویژن نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ پہلے مرحلے میں ایران کے ساتھ اپنی سرحد سے گوادر تک پائپ لائن تعمیر کی جائے گی۔
اس منصوبے کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کوئی فریق مقررہ ڈیڈ لائن پر اپنے حصے کی پائپ لائن کی تعمیر مکمل نہیں کرتا تو اسے مالی جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈونلڈ لو نے محکمہ خارجہ کی ذیلی کمیٹی میں کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ یہ (تعلقات) آج کافی نچلی سطح پر ہیں۔ ہم ایران اور پاکستان کے درمیان اس مجوزہ پائپ لائن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں مجھے نہیں معلوم کہ اس طرح کے منصوبے کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ بین الاقوامی ڈونرز ایسے منصوبوں کے لیے فنڈ دینے میں دلچسپی لیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے حکومت پاکستان کی طرف سے اس منصوبے سے متعلق امریکی پابندیوں میں چھوٹ کی خواہش کے بارے میں بھی نہیں سنا۔ ہماری انتظامیہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ پاکستان کے پاس دوسرے متبادل کیا ہیں؟ ہم اس صورت حال کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ (پاکستان) ایران کے علاوہ قدرتی گیس کہاں سے حاصل کر سکتا ہے؟‘
امریکی سفارت کار نے کہا کہ ’پاکستان ماحول دوست توانائی پر منتقلی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ پاکستان شمسی، ہوا اور پانی کے ذریعے توانائی حاصل کرنے میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ کوئلے اور دیگر ہائیڈرو کاربن پر ان کے انحصار کو کیسے بدلنا شروع کر سکتا ہے؟ میں اس پائپ لائن کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کے مقصد کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ ہم اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔