کراچی: ندی، نالوں میں ڈوبنے والوں کی لاشیں کیسے نکالی جاتی ہیں؟

ایدھی فاؤنڈیشن کے ایمرجنسی آپریشنز کے انچارج محمد سلمان کے مطابق پاکستان بھر کے تمام بڑے شہروں کی نسبت کراچی میں ڈوبنے کے واقعات بڑی تعداد میں پیش آتے ہیں۔

کراچی میں اکثر ندی، نالوں یا سمندر میں ڈوب کر مرنے والوں کی لاشیں تلاش کرنے والے فلاحی اداروں کے رضاکار تربیت یافتہ ہوتے ہیں مگر بعض اوقات صورت حال اتنی مشکل ہوتی ہے کہ انہیں گھنٹوں، گھنٹوں آپریشن جاری رکھنا پڑتا ہے۔

سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اگر انہیں کسی گٹر، ندی یا نالے میں لاش تلاش کرنا ہو تو ان کا چہرہ باہر رہتا ہے اور انہیں اپنے ہاتھوں یا پیروں سے محسوس کر کے متاثرہ شخص کو تلاش کرنا پرتا ہے۔

ایسا ہی ایک ریسکیو آپریشن ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے رواں ہفتے پاک کالونی کے نالے میں کیا، جس میں سیوریج کا پانی اور صعنتی کیمیکلز بھی بہتے نظر آتے ہیں۔

یہ آپریشن 10 ستمبر کو ایک آٹھ سالہ بچے کے نالے میں گر جانے کے بعد شروع کیا گیا تھا، مگر اندھیرا ہونے کے بعد ریسکیو آپریشن روک دیا گیا، جسے اگلے روز (11 ستمبر) کو دوبارہ شروع کیا گیا اور کئی گھنٹوں بعد بچے کی لاش نکال لی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایدھی فاؤنڈیشن کے ایمرجنسی آپریشنز کے انچارج محمد سلمان کے مطابق پاکستان بھر کے تمام بڑے شہروں کی نسبت کراچی میں ڈوبنے کے واقعات بڑی تعداد میں پیش آتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد سلمان نے بتایا کہ ’کراچی میں ملیر اور لیاری ندی کے علاوہ متعدد چھوٹے بڑے نالے ہیں۔ ان نالوں کے دونوں اطراف آبادیاں ہیں، جہاں کے لوگ نالوں کے اوپر بنے کمزور پلوں کے ذریعے ایک طرف سے دوسری طرف جاتے ہوئے گر جاتے ہیں۔

’بچے ان نالوں کے کنارے کھیلتے ہیں۔ نالوں میں گرنے والوں کی اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے ساتھ لگنے والے سمندر میں نہانے والے لوگوں میں سے بھی کچھ ڈوب جاتے ہیں، اس لیے کراچی میں دیگر شہروں کی نسبت ڈوبنے کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں۔‘

محمد سلمان کے مطابق: ’سمندر یا ندی میں تیز بہاؤ کے باوجود لاش کو تلاش کرنا آسان ہوتا ہے، مگر نالوں میں لاش کو تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے اور لاش مل بھی جائے تو اسے باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کراچی کے نالوں میں پلاسٹک، کوڑا، لکڑی اور دیگر فضلہ ہوتا ہے، جس کے باعث رضاکار اس پانی میں آسانی سے تلاش نہیں کر پاتے اور اگر لاش ملتی ہے تو وہ بھی کوڑے میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے، جسے باہر نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

ایدھی فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے ستمبر تک شہر میں تقریباً 100 افراد ڈوب کر جان سے گئے، جن کی لاشیں سمندر، ندی یا نالوں سے نکالی گئیں۔

یہ اعداد و شمار ڈوبنے والے ان افراد کے ہیں، جن کی لاشیں ایدھی رضاکاروں نے نکالیں۔ دیگر فلاحی اداروں اور حکومتی اداروں کی جانب سے نکالی گئی لاشوں کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو وہ سینکڑوں میں ہوں گے۔

محمد سلمان کے مطابق ایدھی کے غوطہ خور نہ صرف تربیت یافتہ ہوتے ہیں، بلکہ ان کی مختلف اقسام کی ویکسینیشن بھی کی جاتی ہے، تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان