سندھ میں شدید بارشیں، ڈھائی لاکھ بچے تعلیم سے محروم: یونیسیف

یونیسف کی رپورٹ کے مطابق رواں سال سندھ میں مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث 1300 سرکاری سکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔

28 اکتوبر، 2022 کو سندھ کے سیلاب سے متاثرہ ضلع دادو میں ایک عارضی سکول میں بچے پڑھ رہے ہیں (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے فنڈ برائے اطفال (یونیسف) پاکستان نے بدھ کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 2024 میں صوبہ سندھ میں مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث 1300 سرکاری سکولوں کو نقصان پہنچا اور یوں دو لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم جاری رکھنے سے محروم ہو گئے۔

رپورٹ کے مطابق ان 1300 سکولوں میں سے 228 سکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ سیلابی پانی بھرنے سے 450 سے زائد سکولوں میں تعلیم بند ہو گئی۔

رپورٹ کے ساتھ جاری بیان میں یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاضل نے کہا: ’سندھ میں ہیٹ ویو، سیلاب سمیت موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے بچوں کو بار بار تعلیم سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔

’پاکستان کو پہلے ہی تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا ہے اور 62 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

’ہمیں امید ہے کہ بارش کا پانی تیزی سے کم ہو گا اور بچے اپنی کلاسوں میں واپس جا سکیں گے۔

تاہم انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ سکولوں کی طویل بندش سے بچوں کی واپسی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔

یکم جولائی سے اب تک صوبے بھر میں مون سون کی بارشوں کے باعث 76 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سے نصف بچے ہیں۔

صوبہ سندھ میں دریاؤں میں طغیانی سے آبادیاں زیر آب آ گئی ہیں، جس کے نتیجے میں 10 آفت زدہ اضلاع میں ایک لاکھ 40 ہزار بچے اور خاندان بے گھر ہیں۔

بیان کے مطابق یونیسف کی ٹیمیں تیزی سے متاثرہ خاندانوں کی ضروریات کا جائزہ لے رہی ہیں اور تعلیمی سہولیات تک رسائی بحال کرنے اور متاثرین کی جلد بحالی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور طویل مدتی منصوبوں پر حکومت اور مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

سندھ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات سمیت اہم بنیادی ڈھانچہ راتوں رات تباہ ہو گیا تھا۔

گذشتہ تباہی کے اثرات سے اب تک لڑتے متاثرہ خاندان ایک بار پھر شدید موسم کی زد میں ہیں، جس کی سب سے بھاری قیمت بچوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبداللہ فاضل کے مطابق مون سون نے ایک بار پھر پاکستان بھر میں زندگیاں اُجاڑ دی ہیں۔ بچوں نے اپنی زندگیاں، گھر اور سکول کھو دیے ہیں۔

بقول عبداللہ فاضل: ’ہمیں بچوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کی حامل تعلیمی سہولیات اور خدمات میں فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

’ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار اس ملک میں جدت طرازی، حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیتوں کے فروغ اور نقصانات کو کم سے کم کرنے اور موسمیاتی تغیر کے پیش نظر بچوں کے لیے پائیدار سہولیات ترتیب دینے کے لیے شراکت داروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔‘

یونیسف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی سی آر آئی) میں پاکستان 163 ممالک میں سے 14 ویں نمبر پر ہے، جہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نقصاندہ اثرات کے ’شدید ترین خطرے ‘ کا سامنا ہے، جس کے باعث بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل خطرے سے دوچار ہیں۔  

سندھ کے وزیرِ تعلیم سید سردار شاہ نے یونیسف کی رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے کہا 2022 کے سیلاب کے دوران سندھ میں سات ہزار سرکاری سکول مکمل طور پر تباہ ہوئے اور 13 ہزار سکولوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ جزوی نقصان پہنچنے والے سکولوں کا 50 فیصد کو بحال کردیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سید سردار شاہ نے کہا : 'وفاقی حکومت نے سندھ کے تین ہزار سکولوں کی ازسر نو تعمیر کرانے منصوبہ منطور کیا ہے۔ مگر تاحال فنڈز جاری نہیں کیے۔

'ہم گذشتہ چند سالوں کے دوران 65 ہزار نئے اساتذہ بھرتی کیے۔ جن میں 40 ہزار اساتذہ کی تربیت کی۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹ بک بھی وافر تعداد میں بچوں میں بانٹ دی ہے۔

'مگر محکمہ تعلیم سندھ کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ انفراسکٹچر کا ہے۔ شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث سکول کی عمارتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ جن کی ازسر نو تعمیر کی شدید ضرورت ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات