جموں و کشمیر کے جاری انتخابی عمل میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ عوام کے ایک بڑے حصے میں مین سٹریم جماعتوں کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
دوسری جانب جماعت اسلامی اور چند آزادی پسند نوجوان امیدواروں کے خلاف کئی محفلوں میں زہر بھی اگلا جا رہا ہے جو سنہ 90 کی مسلح تحریک کے بعد پہلی بار انتخابات میں حصے لے رہے ہیں۔
جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس ماضی میں انتخابی عمل کو حرام قرار دے کر ہڑتال کی کال دیتی آئی ہیں۔
بعض عوامی حلقوں میں نفرت اور غصے کے باوجود انتخابی جلسوں میں ہزاروں لوگ شامل ہو رہے ہیں جس سے یہ کہنا مشکل لگ رہا ہے کہ کس کے پاس کتنے ووٹ ہیں۔
60 کی دہائی میں سابق وزیراعظم بخشی غلام محمد سے سوال پوچھا گیا تھا کہ ’جموں و کشمیر کے عوام ہر جلسے میں موجود رہتے ہیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ آخر کس کے ساتھ ہیں؟
بخشی نے جواب دیا: ’40 لاکھ میرے ساتھ ہیں اور 40 لاکھ شیخ عبداللہ صاحب کے ساتھ ہیں۔‘
اس وقت کشمیر کی کل آبادی 40 لاکھ کے قریب تھی۔
جماعت اسلامی کی سیاست سے واقف عوام 70 دہائیوں سے ان کے بدلتے انداز، بدلتے تیور اور بدلتی پالسیوں کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھتے رہے ہیں اور محسوس کرتے رہے ہیں۔
جماعت سن 70 سے انڈین آئین کے تحت ہونے والے انتخابی عمل کا حصہ رہی ہے اور چار نشستوں سے اوپر کبھی نہیں جیتی ہے البتہ اس کا موقف تھا کہ جموں و کشمیر ایک متنازع خطہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے اس کا فیصلہ ہونا چاہیے، جماعت نے ہمیشہ الحاق پاکستان کی وکالت کی ہے۔
مگر جب بھی اس جماعت نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تب پس پردہ کسی دوسری جماعت کا سہارا بنی، اسمبلی میں نامزد نشست حاصل کی یا پھر علاقائی جماعت کے ساتھ خفیہ گٹھ جوڑ کر کے اس پارٹی کو ووٹ دلوانے میں کردار ادا کیا۔
سوال یہ ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے میں اس وقت جماعت کے بارے میں شکوک کیوں ہیں جب سنہ 90 کے بعد پہلی بار آج جماعت نے اپنے چند امیدوار کھڑے کیے ہیں اور چند آزاد امیدواروں کی حمایت کر نے کا اعلان بھی کیا ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جماعت پر مرکزی سرکار کا سخت دباؤ ہے اور اس کے بیشتر رہنما اس وقت پابند سلاسل ہے، انتخابی عمل میں شرکت کر کے یہ جماعت اسلامی پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
واضح رہے حکومت نے جماعت کی سرگرمیوں پر قدغن لگا کر اسے کالعدم تنظیم قرار دیا ہے۔
اب یہ جماعت اور آزادی کے چند متوالے عوام سے اس اسمبلی کے لیے آج کل ووٹ مانگ رہے ہیں جس کی نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ کوئی اختیار۔
جب سنہ 90 میں آزادی کی مسلح تحریک شروع ہوئی جو قوم پرست تحریک تھی اور جس میں پہلے مذہب کا کوئی عنصر موجود نہیں تھا اور جس کی بنا پر اس کے ساتھ بڑی آبادی جڑ گئی تھی فوراً ہائی جیک ہو گئی۔
ہائی جیکر جماعت اسلامی کو قرار دیا گیا اور مکمل آزادی کے بدلے الحاق پاکستان اور ’یہاں کیا چلے گا؟ نظامِ مصطفی‘ کے نعرے مسجدوں سے گونجنے لگے۔
سیکیولر یا اعتدال پسند بیشتر عناصر کو روپوش ہونا پڑا، پنڈتوں کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد کو گھر چھوڑنا پڑا اور ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان مذہبی جنونیت میں آ کر تحریک میں شامل ہوتے گئے۔ بیشتر نے تحریک کو جہاد تصور کر کے اپنا کردار ادا کرنا چاہا۔
ابھی تک اس بات پر سوالیہ نشان ہے کہ پاکستان نے تحریک کی ہائی جیکنگ میں کتنا بڑا کردار نبھایا اگرچہ شروعات حاجی گروپ کہلانے والے لبریشن فرنٹ کے پانچ نوجوانوں نے کی تھی، جو مکمل آزادی کے خواہاں تھے۔
جماعت اسلامی کی زمینی سطح پر گہری چھاپ تھی لہٰذا اس کے پرچم تلے تحریک مضبوط ہو گئی مگر اس کے پیچھے سے مزید درجنوں تنظیموں کو متعارف کرایا جا رہا تھا اور اندرونی طور یہ کئی تنظیموں میں بٹ گئی تھی۔
تحریک کی بانی لبریشن فرنٹ کی تنظیم چند افراد تک محدود کر دی گئی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب سنہ 90 کے اواخر میں جماعت کے مسلح ونگ حزب المجاہدین اور نیشنلسٹ تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے مابین شدید تصادم منظر عام پر آیا اور کئی نوجوان قتل کر دیے گئے۔
عوام جو آزادی کے خواب دیکھ رہے تھے مایوسیوں کا شکار ہو گئے۔
گو کہ جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کے زعما نے مفاہمت کرنے کی کوششیں اور ایک دوسرے کے خلاف مزاحمت کو پردے میں رکھا۔
لیکن جماعت سے وابستہ اور حریت کے ایک دھڑے کے بزرگ رہنما مرحوم سید علی شاہ گیلانی نے ایک بڑے اجتماع میں خود کو تحریک کا امیر کارواں قرار دینے پر عوام سے بیعت مانگی تو اجتماع میں ایک دم انتشاری کیفیت نظر آئی۔
کہا جا رہا ہے کہ لبریش فرنٹ کے رہنما جو ابھی راستے میں تھے اور اسی اجتماع سے خطاب کرنے آ رہے تھے۔ عوام کو قیادت کے اتحاد کا یقین دلانا چاہتے تھے، امیر کاروان کی خبر سنتے ہی راستے سے واپس کوچ کر گئے۔
اس کے بعد تحریک بکھر گئی، اتحاد ختم ہو گیا، لوگ بٹ گئے اور بندوق تقسیم ہو گئی مگر معصوم نوجوانوں کا لہو مسلسل بہتا رہا۔
میں نے جنوبی کشمیر میں جماعت اسلامی کے رہنما اور انتخابی امیدوار سیار احمد ریشی سے پوچھا کہ نوے کی تحریک سے آپ کی جماعت ہڑتال کی کال دیتی آرہی ہے کیا وہ غلط فیصلہ تھا اور مسلح تحریک بھی غلط تھی؟
’ہم نے 1987 میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے بینر تلے ریاستی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ ہم نے کبھی جمہوری عمل کے خلاف بات نہیں کی مگر نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے دھاندلی کر کے ہماری کامیابی کو شکست میں بدل دیا جس سے جمہوریت پر ہمارا اعتماد ختم ہوا۔
’ہمارے نوجوان دل برداشتہ ہو کر بندوق اٹھانے پر مجبور کر دیے گئے۔ پھر حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے اور مین سٹریم جماعتیں ہڑتال سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے اکثریت حاصل کرتی گئی۔
’ان کی اجارہ داری نے ہمارے نوجوانوں کا استحصال کیا۔ قبرستان بنائےاور وہ اپنی روٹیاں سینکتے رہے۔ جتنا ظلم مقامی جماعتوں کے دور حکومت میں ہم پر ہوا اتنا بی جے پی کی سرکار نے نہیں کیا۔ ہم پر شیخ عبداللہ نے پہلے پابندی عائد کی تھی اور اب بی جے پی نے بھی ہم پر عذاب نازل کیا۔‘
سیار احمد ریشی مزید کہتے ہیں کہ ‘مسلح تحریک میں ہمارا کردار تھا مگر اس کی بنیادی وجہ اس وقت عوام کی جمہوری حق تلفی بن گئی۔
’اس وقت ہمارے آس پڑوس میں جو غیر یقینی حالات ہیں، عالمی سیاست کی نئی ترجیحات بن رہی ہیں اور ہماری سرگرمیوں پر روک لگانے کا عمل جاری ہے ان کے پس منظر میں ہمیں اپنی وجود، تشخص اور ذریعہ معاش کو بچانا ہے۔
’جس کا مقابلہ جمہوری عمل سے ہی کیا جا سکتا ہے، چند پرانی مین سٹریم جماعتیں ہیں جنہیں ہماری موجودگی سے سخت پریشانی لاحق ہو رہی ہے اور وہ بدستور ہڑتالی سیاست کا فائدہ اٹھا کر کرسیاں حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔‘
مگر ڈاون ٹاون کے آزادی پسند نوجوان شکیل احمد کہتے ہیں (حفاظت کے لیے نام بدل دیا گیا ہے) ‘کاش جماعت اور حریت نے ناحق ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں کو ذبح ہونے سے بچایا ہوتا۔
اگر سن نوے کے بعد ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا ہوتا، تب تو پھر بھی ایک ریاست تھی جس کی اندرونی خود مختاری تھی، اب نہ ریاست ہے اور نہ اختیار، کیا جماعت اور حریت رہنما ان ایک لاکھ ماؤں کو جواب دیں گے جن کے بیٹوں کی قبروں پر ابھی تک مٹی گیلی پڑی ہے؟‘
2019 میں اندرونی خودمختاری ختم ہونے کے بعد جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے کر مرکزی حکومت نے اس پر پابندی عاید کر دی اورقیادت کو اسیر بنا دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بی جے پی کی حکومت نے اقوام متحدہ کی قرارداد، آزادی کا مطالبہ ترک کرنے اور انڈین آئین کے تحت انتخابات میں شامل ہونے کے عوض پابندی ہٹانے کا وعدہ کیا ہے اور جماعت کے ایک کارکن کے بقول ’ہمارے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے اور مجبوری کی حالت میں ہمیں زہر کا پیالہ پینا پڑ رہا ہے۔‘
وادی کی بڑی سیاسی جماعتیں بشمول نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے جماعت اسلامی اور انجنیر رشید کو بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے جو بقول ان کے نئی اسمبلی میں بی جے کے حلیف ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے سنہ 79 میں بھٹو کی پھانسی کے وقت جنوبی کشمیر میں جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کے گھر اور املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جس کا جواب بعد میں انہوں نے جنرل ضیا کی موت کے وقت شدید حملوں سے دیا تھا۔
جماعت کے رہنما اور امیدوار سیار احمد کہتے ہیں کہ ‘ہمیں پاکستان کی جماعت اسلامی سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ کوئی مراسم ہیں‘، حالانکہ جماعت اسلامی پاکستان کا تحریک آزادی میں ایک خاص کردار رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے جنوبی کشمیر میں جماعت کا خاصا اثر رسوخ ہے اور اسی لیے جماعت نے جنوب سے اپنے نمائندے کھڑے کیے ہیں۔
جماعت کے اجتماعات نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے لیے اچھا شگون نہیں ہے جو پہلے ہی شمال میں انجینر رشید کی ضمانت ملنے کے بعد تشویش میں مبتلا ہیں۔
انجینیر رشید کے رہا ہونے کے بعد عوام کی ترجمانی کرنے والے ان کے پہلے بیان نے وادی میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں نہ تو جیلوں سے ڈرتا ہوں اور نہ سختیوں سے، جموں و کشمیر ایک متنازع خطہ ہے اور آرٹیکل 370 یہاں کی شناخت، حقوق اور آئین برقرار رکھنے کے لیے آئین ہند میں شامل کیا گیا تھا۔
’اس کو ہٹانے سے اگر مودی جی نیا کشمیر بنانا چاہتے ہیں تو میں بہ آواز بلند کہنا چاہتا ہوں کہ مودی جی کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا ہے جس کا ثبوت انہیں کشمیر کے پارلیمانی نتائج سے مل گیا ہے۔‘
بی جے پی کے رہنماوں نے ان کے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
وسط کشمیر میں انتخابات کا اتنا سماں نہیں جہاں بی جے پی سرینگر کے دل سے چند نشستیں حاصل کرنے پر زور آزمائی کر رہی ہے۔
جموں میں کانگریس اور بی جے پی کے بیچ معرکہ ہے اور بی جے پی کو بیشتر نشستیں ٹیں ملنے کے امکانات موجود ہیں۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے پانچ برسوں میں نہ صرف جموں و کشمیر کے ٹکڑے کرنے کا اپنا خواب پورا کر دیا بلکہ پہلی بار شمال، جنوب اور وسط کشمیر کے انتخابی نقشے بنا کر آبادی کو فرقوں، ذاتوں، نسلوں اور برادریوں میں توڑنے پر کافی ہوم ورک کیا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
نعیمہ احمد مہجور کشمیری صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔