’مزدوری بھی اور صفائی بھی‘: کشمیر میں دریا سے کارآمد کچرا نکالنے والے شہری

زمین پر پڑے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے مطلب کا کچرا ڈھونڈنا عام سی بات ہے لیکن تند و تیز دریا کی بپھری ہوئی لہروں کے ساتھ بہتے کوڑے سے کار آمد اشیا تلاش کرنا اور انہیں فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرنا حیران کن اور بہادری کا کام ہے۔

زمین پر پڑے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے مطلب کا کچرا ڈھونڈنا عام سی بات ہے لیکن تند و تیز دریا کی بپھری ہوئی لہروں کے ساتھ بہتے کوڑے سے کار آمد اشیا تلاش کرنا اور انہیں فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرنا حیران کن اور بہادری کا کام ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفرآباد کے قریب دومیل کے مقام پر دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے ملاپ کے بعد تھوری ایک ایسا مقام ہے، جہاں ان دونوں دریاؤں کا پانی بھنور بناتے ہوئے اپنے اندر آنے والا سارا کچرا کسی واشنگ مشین کی طرح گول چکر میں گھماتا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں لوگ اس کچرے سے کارآمد اشیا نکالتے اور انہیں فروخت کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے روزگار کا انحصار اسی دریا میں بہتے کچرے پر ہے۔

دریا کے اس مقام پر جہاں اس کا پاٹ بہت وسیع ہو جاتا ہے، وہیں بھنور کی جگہ خطرناک حد تک گہرائی بھی ہے۔

دریا سے کارآمد اشیا اکٹھی کرنے کے بعد یہ کباڑ کی دکانوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔

دریا سے حاصل ہونے والی لکڑی کو فروخت کرنے کے بجائے اسے سکھا کر گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسری چیزیں جیسے پلاسٹک کے جوتے، لوہے کی اشیا (جو پلاسٹک کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں اور سطح پر بہتے ہوئے کنارے پر آتی ہیں) اور پلاسٹک کی بوتلوں وغیرہ کو الگ الگ کیا جاتا ہے اور تھیلوں میں ڈال کر کباڑ کی دکانوں پر پہنچایا جاتا ہے۔

یہاں پر کچرا چننے آنے والے افراد عمومی طور پر اس وقت دریا کا رخ کرتے ہیں، جب بہاؤ میں غیر معمولی اضافہ ہو اور اس کی وجہ اس مخصوص وقت میں زیادہ چیزوں کے پکڑے جانے کا امکان ہونا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے دریا سے کباڑ جمع کرنے والے ایک مقامی رہائشی میدل خان سے گفتگو کی، جنہوں نے دریا میں کچرا پھینکنے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پانی میں آلودگی شامل ہوتی ہے، جس سے آبی حیات متاثر ہوتی ہیں اور دریا کا پانی قابل استعمال نہیں رہتا۔

انہوں نے بتایا: ’ہم دریا سے کچرا چن کر دو کام کر رہے ہیں، اول دریا کو اس پلاسٹک اور کچرے سے نجات دلا کر اسے صاف کر رہے ہیں۔ دوسرا ہم اس کچرے فروخت کرکے رزق حلال کماتے ہیں۔‘

15 سے 20 سال سے یہی کام کرنے والے محمد ظہیر کا کہنا تھا کہ ’دریا میں جو کچرا آتا ہے، چاہے وہ لوہا ہو یا پلاسٹک، ہم اسے نکالتے اور بیچ دیتے ہیں۔ ہم دریا میں آنے والے اس کچرے کی صفائی کرتے ہیں، اگر ایسا نہ کریں تو دریا مکمل کچرے سے بھر جائے گا۔

’ہمارے علاوہ بھی یہاں پر لوگ کام کرتے ہیں۔ ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ دریا میں کچرا بالخصوص پلاسٹک نہ پھینکیں۔ دریا آلودہ ہوتا ہے اور ہمارے لیے بھی مسئلہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دریا کے کنارے ریت نکالنے کا کام کرنے والے محمد شبیر کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ لوگ نہ ہوں، جو دریا سے پلاسٹک اور لکڑیاں نکالتے ہیں تو دریا کے کنارے کچرے سے بھر جائیں اور دریا میں گندگی کے علاوہ کناروں پر ریت اور پتھر نکالنے والے بے روزگار ہوجائیں۔

’یہ لوگ ایک تو اس سے اپنا روزگار چلا رہے ہیں اور دوسرا غیر محسوس طریقے سے دریا کی صفائی کر رہے ہیں۔‘

میئر بلدیہ سید سکندر علی گیلانی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دریا سے کچرا نکالنا ایک مثبت عمل ہے لیکن اس شرط پر کہ کسی کی جان کو خطرہ لاحق نہ ہو۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ دریا میں کچرا پھینکنا ایک غلط عمل ہے، جسے بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

’جو لوگ دریا سے پلاسٹک نکال رہے ہیں، وہ دریا صاف کر رہے ہیں لیکن اگر یہ کام مکمل حفاظتی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیا جائے تو یہ ایک ماحول دوست عمل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں پانی کو صاف رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جاتا ہے۔

میئر نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پروگرام متعارف کروا رہا ہے، جس میں ان لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

بقول سکندر علی گیلانی: ’ہم ایسے تمام لوگوں کو، جو کچرا نکالنے کا کام کرتے ہیں، روزگار کے مواقع دیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ نئے پروگرام کے تحت اکٹھا کیا جانے والا کچرا ایک جگہ جمع ہو گا، جس سے پلاسٹک اور دیگر اشیا کو الگ کرنے کا کام ان لوگوں کو دیا جائے گا اور اس کام کے ٹینڈر نکالے جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان