جموں و کشمیر میں ایسا انتخابی منظرنامہ پہلی بار نظر آ رہا ہے جب درجنوں مرکزی جماعتیں، نئے اتحادی، آزاد امیدواروں کی بڑی کھیپ اور ممنوعہ تنظیموں اور محبوس افراد کی یلغار عوام کو اپنی جانب مائل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
ایک دہائی پر محیط بی جے پی کی مرکزی سرکار کے بعد آج کل اس اسمبلی کے لیے انتخابی مہم جاری ہے جس کی ہیت، روڈ میپ اور اختیارات کا نہ کسی کو علم ہے اور نہ کسی نے جاننے کی زحمت گوارا کی ہے، بشمول ان پرانی جماعتوں کے جو اکثریت حاصل کرنے پر پر اعتماد نظر آ رہی ہیں۔
سماجی کارکن سجاد رسول کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں توڑ کر میونسپلٹی کے برابر بھی درجہ حاصل نہیں، مگر سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ سیاست دانوں کی ایک نئی پود اس طرح دوڑ میں شامل ہو رہی ہے کہ جیسے سنہ 90 میں لوگ تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے، ان میں انڈیا کی بیشتر بڑی جماعتیں بھی کشمیر میں کھاتہ کھولنے کے چکر میں عوام کو بہلا رہی ہیں۔
ایک جانب نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی قیادت میں مرکزی جماعتوں کے ’انڈیا‘ الائنس کے مابین انتخابی اتحاد سے بی جے پی کو شدید پریشانی لاحق ہوئی ہے وہیں دوسری جانب محبوس رہنما انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی، آزاد ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی نے اپنے سینکڑوں امیدوار میدان میں کھڑے کیے ہیں، پس پردہ مائنس این سی اور کانگریس کے، مستقبل کی ایک نئی قیادت سیاسی منظر نامے پر لانے کی کوششیں جاری ہیں۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ نوجوانوں کی خاصی تعداد بحیثیت آزاد امیدوار سیاسی اکھاڑے میں موجود ہے جن میں اکثر کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں پس پشت مرکزی سرکار کی آشیرواد حاصل ہے۔
انتخابی مہم اس وقت مزید دلچسپ بن گئی جب رپورٹوں کے مطابق جماعت اسلامی نے آزاد امیدواروں کی حمایت کرنے کا اعلان کیا جس کے بدلے میں منتخب امیدواروں نے اس پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ جماعت اسلامی جو جموں و کشمیر کی الحاق پاکستان کی حامی اور سنہ 90 کی تحریک آزادی میں پیش پیش رہی ہے، پر مرکزی سرکار نے مزید پانچ سال تک پابندی عائد کر دی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق سرکار نے پابندی ہٹانے کو انتخابات میں شرکت سے مشروط کر دیا ہے۔
’آزادی چاچا‘ کے نام سے مشہور سرجان برکاتی کی بیٹی نے اپنے والد کے کاغذات نامزدگی داخل کر دیے تھے مگر وہ رد کر دیے گئے ہیں۔
حریت رہنما میر واعظ کشمیر عمر فاروق کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مرکزی سرکار نے انہیں انتخابات میں شرکت کرنے پر مائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ براہ راست لڑنے کے بجائے چند امیدواروں کی پس پشت حمایت کرنے پر راضی ہو گئے ہیں تاہم اس کی ابھی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پارلیمانی انتخابات میں شکست کے باوجود اسمبلی انتخابات میں بحیثیت امیدوار شریک ہو رہے ہیں حالانکہ انہوں نے دفعہ 370 ختم کرنے کے بعد سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے کا اعلان کیا تھا۔
انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی میں مختلف مکتب فکر سے وابستہ نوجوان شریک ہو رہے ہیں اور وہ نئی اسمبلی میں کنگ میکر کے طور پر ابھر رہی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نتائج کے بعد انجینیئر رشید، جماعت اسلامی، عوامی ایکشن کمیٹی، آزاد امیدوار اور چند چھوٹی جماعتوں کا ایک اتحاد بنایا جائے گا جس کی حمایت بی جے پی کرے گی اور جو مستقبل کی حکومت قائم کرنے کی اہل قرار دی جائے گی۔
بقول ایک روزنامے کے ایڈیٹر ’ایسا ہر کوئی راستہ اختیار کیا جائے گا جو نیشنل کانفرنس، کانگریس اور دوسری ناپسندیدہ جماعتوں کو حکومت سازی سے روک سکتا ہے اور جو بی جے پی کی سرکار کا اہم ایجنڈا بھی ہے۔‘
مگر عوامی اتحاد پارٹی کے ترجمان فردوس بابا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کبھی بی جے پی کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ وہ ہر اس جماعت سے اتحاد کرنے کو ترجیح دیں گے جو اندرونی خودمختاری بحال کرنے میں پہل کرے گی۔‘
اس دوران امریکی وفد کے دورہ کشمیر کو اہمیت دی جا رہی ہے جو سیاسی اور غیر سیاسی رہنماؤں سے مل کر اندرونی خودمختاری کے بعد کی صورت حال سے آگاہی حاصل کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بی جے پی کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہو گا، ہماری موجودگی سے نیشنل کانفرنس اور دوسری جماعتوں کو ہارنے کا خطرہ ستانے لگا ہے جس کے باعث وہ یہ خرافات پھیلا کر عوم کو بدظن کر رہی ہیں۔ ہمارا مقصد حکومت سازی سے زیادہ ہزاروں قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرانا ہے جن کو بغیر کسی چارج کے بند رکھا گیا ہے۔‘
امید کی جا رہی ہے کہ انجینیئر رشید ضمانت ملنے کے بعد خود انتخابی مہم کو جاری رکھیں گے۔انتخابی مہم کی اس گہماگہمی کے پس منظر میں امریکی وفد کے دورہ کشمیر کو اہمیت دی جا رہی ہے جو سیاسی اور غیر سیاسی رہنماؤں سے مل کر اندرونی خودمختاری کے بعد کی صورت حال سے آگاہی حاصل کر رہا ہے۔
انتخابی عمل تین مرحلوں میں طے پایا جائے گا۔ 90 نشستوں والی اسمبلی کے لیے پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو 24 حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے جس کے لیے 280 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے تھے جن میں 32 امیدواروں کے کاغذات مسترد کر دیے گئے ہیں۔
دہلی کے سیاسیات کے ایک پروفیسر نے اپنے تحفظ کے خدشات کے پیشِ نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بی جے پی کی حکومت نے آرٹیکل 370 کے وقت عالمی برادری کو خاموش رہنے کی صلاح دے کر کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر میں تحریک اور اندرونی خودمختاری ختم کر کے ایک نئے کشمیر کی بنیاد ڈالے گی اور جس میں ہر کوئی انڈین آئین اور پرچم کا پاسدار ہو گا، موجودہ انتخابی مہم اور سیاسی سرگرمیوں سے امریکی وفد کو اس کی ضمانت خود بخود مل رہی ہے، پاکستان کے ابتر اندرونی حالات اور کشمیر پر اس کی مسلسل خاموشی سے انڈین بیانیہ عالمی برادری میں تقویت پا رہا ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
نعیمہ احمد مہجور کشمیری صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔