کشمیری عسکریت پسندوں کی ٹیکنالوجی اور نئی حکمت عملی سے انڈین حکام پریشان

رواں ہفتے کشمیر میں ایک دہائی بعد ریاستی انتخابات ہو رہے ہیں، بی جے پی کے منشور میں خطے کو ’دہشت گردی کے گڑھ سے سیاحتی مقام‘ میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود حملوں میں یہ اضافہ مودی سرکار کے کشمیر میں امن لانے کے دعووں کی نفی کرتا ہے۔

15 اگست 2024 کو سری نگر میں ملک کے یوم آزادی کے موقع پر انڈین سکیورٹی اہلکار ایک سڑک پر گشت کر رہے ہیں (توصیف مصطفیٰ / اے ایف پی)

یہ نو جون کی شام تھی جب سینکڑوں ہائی پروفائل مہمان ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی تیسری حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے دہلی میں جمع ہوئے لیکن یہاں سے تقریباً ساڑھے چھ سو کلو میٹر دور کشمیر کے پہاڑوں میں ایک خونی کھیل کھیلا گیا۔

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے جنوبی علاقے میں ہندو یاتریوں کو لے جانے والی ایک بس پر عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کیا جس میں نو افراد مارے گئے اور 33 زخمی ہوئے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ہسپتال سے ایک زخمی یاتری نے بتایا کہ ’بس گہری کھائی میں گرنے کے بعد بھی عسکریت پسند آدھے گھنٹے تک اس پر فائرنگ کرتے رہے۔ جس کا مقصد واضح طور پر ہم سب کو مارنا اور مودی کو پیغام دینا تھا۔‘

یہ اس متنازع خطے میں کوئی پہلا یا اکلوتا واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بڑھتی عسکریت پسندی کی عکاسی کرتا ہے جہاں 2020 سے اب تک تقریباً دو سو سکیورٹی اہلکار اور 350 سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حملوں کی یہ نئی لہر کئی دہائیوں میں اس خطے کو درپیش چیلنجز سے زیادہ تشویشناک اور حملوں کی نوعیت تکنیکی طور پر خاصی جدید ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈین فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پہلے سے زیادہ سرگرم ہیں۔

رواں ہفتے کشمیر میں ایک دہائی بعد پہلی بار ریاستی انتخابات ہو رہے ہیں۔ مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں خطے کو ’دہشت گردی کے گڑھ سے ایک سیاحتی مقام‘ میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود حملوں میں حالیہ اضافہ مودی سرکار کے کشمیر میں امن لانے کے دعووں کی نفی کرتا ہے۔

1947 میں آزادی کے بعد سے انڈیا اور پاکستان دونوں نے پورے خطے کی ملکیت پر اپنا دعویٰ کیا ہے جبکہ دونوں ہی اس کے حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسی خطے پر دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1990 کی دہائی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا تھا جب ہزاروں کشمیریوں نے انڈین تسلط کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار اٹھائے جس کے جواب میں انڈیا نے بے دردی سے فوجی آپریشن شروع کیے جس سے عسکریت پسندوں کے اثر و رسوخ کو تو کم کیا گیا لیکن اس پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگائے گئے۔

تاہم دہلی علیحدگی پسند بغاوت کو کبھی بھی مکمل طور پر کچل نہیں سکا۔ حملوں کی لہروں اور نئی عسکریت پسند شخصیات نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کشمیر اب بھی دنیا کے سب سے زیادہ فوجی علاقوں میں سے ایک ہے۔

اگست 2019 میں مودی حکومت نے یکطرفہ طور پر کشمیر سے وہ جزوی خود مختاری بھی چھین لی جو اسے آزادی کے بعد سے حاصل تھی اور اسے نئی دہلی کے مکمل کنٹرول میں لے آیا۔

اس کے بعد سے مودی نے ہزاروں اضافی فوجی کشمیر بھیجے، مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کر دیا اور لاکھوں کشمیریوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں لگا دیں۔ سینکڑوں کشمیریوں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور مقامی صحافیوں کو معمول کے مطابق حراست میں لیا گیا اور انہیں ہراساں کیا گیا۔

انڈین اسٹیبلشمنٹ میں بہت سے لوگوں نے اس اقدام کا جشن منایا لیکن اسے کشمیر کے اندر اور پاکستان کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔

مودی حکومت نے خطے کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کی بنیاد پر کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کے اپنے فیصلے کو درست قرار دیا۔ اس کے باوجود انڈیا کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مطابق کشمیر کی شورش ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے اور بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حملوں کی اس تازہ لہر کا براہ راست تعلق مودی حکومت کے اقدامات سے ہے۔

انڈین فوج کے ایک سابق افسر اور دفاعی ماہر پروین ساہنی نے دا گارڈین کو بتایا کہ ’انڈیا کو اپنی سرحد کے اندر جس خطرے کا سامنا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔‘

گذشتہ سال نومبر میں گھات لگا کر کیے گئے ایک حملے میں پانچ فوجیوں کی موت کے بعد انڈیا کے آرمی چیف جنرل اوپیندر دویدی، جو اس وقت اس خطے میں شمالی کمان کے سربراہ تھے، نے کہا کہ یہ نئے عسکریت پسند مبینہ طور پر ’پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے اعلیٰ تربیت یافتہ‘ تھے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان میں سے کچھ ریٹائرڈ پاکستانی فوجی تھے۔ دوسری جانب پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

انڈین جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل شیش پال وید نے کہا کہ انتہائی مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ عسکریت پسند ایم فور سالٹ رائفلز سمیت ان جدید ترین ہتھیاروں کا بھی استعمال کر رہے تھے جو امریکی فوج نے افغانستان سے فرار کے وقت وہاں چھوڑ دیا تھا۔

وید نے کہا، ’گذشتہ دو سالوں میں جس طرح سے وہ ہماری افواج پر گھات لگا کر حملہ کر رہے ہیں اس سے ایک نئے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ مجھے شورش سے نمٹنے کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے لیکن میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہمیں کبھی بھی ایسی کسی چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑا – کم از کم پچھلی دو دہائیوں میں تو نہیں۔‘

انڈین فوج اور مقامی پولیس اور انٹیلی جنس کے افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر برطانوی اخبار کو بتایا کہ ’حالیہ حملوں میں مقامی شدت پسند نوجوان شامل نہیں تھے جن کو لڑائی کی بہت کم تربیت حاصل ہے بلکہ یہ عسکریت پسندوں کی ایک نئی کھیپ ہے جو بظاہر عسکری معیار کے مطابق اعلیٰ تربیت یافتہ تھے، ڈرون سمیت ہائی ٹیک آلات سے لیس تھے اور پاکستان کی سرحد کے قریب بات چیت کرنے کے لیے ناقابل رسائی چینی ایپلی کیشنز کا استمعال کر رہے تھے۔‘

ایک فوجی اہلکار نے کہا کہ ’پچھلے دو سالوں کے حملوں نے ہمیں دنگ کر دیا ہے۔ ان لوگوں نے گوریلا جنگ کی وسیع تربیت حاصل کی ہے اور ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا ہے۔‘

ان کے بقول: ’ماضی میں خودکش حملوں یا پولیس کے ساتھ دوبدو مقابلوں کے دوران مارے جانے کے برعکس اب یہ عسکریت پسند حملے کے لیے کئی کئی دنوں تک انتظار میں رہتے ہیں اور پھر انڈین فوج کے اہداف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے بعد وہ واپس جنگلوں میں غائب ہو جاتے ہیں اور چھپے رہنے کے لیے پیچیدہ پہاڑی علاقے کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس سے ان کا سراغ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ وہ انڈین سرحد کے اندر نو میل تک ہتھیاروں اور رقم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔‘

انڈین فوجی افسر نے کہا: ’ہمیں ان عسکریت پسندوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ ہمیں اس بات کا درست علم نہیں ہے کہ وہ کون ہیں اور وہ ہمارے لیے کتنے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔‘

پولیس اور انڈین فوجی افسران کے مطابق اس خطے میں تقریباً 150 عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ سکیورٹی حکام نے بتایا کہ کس طرح انڈین فوجیوں پر ان عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کیا جنہوں نے باڈی کیمرے پہن رکھے تھے اور پھر انہوں نے بعد میں یہ ویڈیوز آن لائن پوسٹ کیں۔ جولائی میں ڈوڈا علاقے میں ایک حملے کے بعد عسکریت پسندوں نے ایک انڈین فوجی افسر کا سر قلم کیے جانے کی ویڈیو آن لائن پوسٹ کی۔

شمالی کمان کے سابق سربراہ دیپندر سنگھ ہڈا نے کہا: ’اب ان کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی ہے۔ عسکریت پسند فوجیوں پر گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں، پھر غائب ہو جاتے ہیں اور بعد میں کسی اور جگہ دکھائی دیتے ہیں اور وہاں حملہ کرتے ہیں۔‘

جن لوگوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق نئے عسکریت پسند گروپوں جیسے پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ، ریزسٹنس فرنٹ اور کشمیر ٹائیگرز سے ہے جو کہ مودی کی طرف سے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سامنے آئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انڈین فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ گروپ محض جیش محمد اور لشکر طیبہ کی نئی برانڈنگ ہیں جو کہ تاریخی طور پر شورش کی ذمہ دار تنظیمیں ہیں۔

تشویش کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ حملے اب کہاں ہو رہے ہیں۔ خطے کا واحد ہندو اکثریتی علاقہ جموں بڑی حد تک عسکریت پسندوں کے حملوں سے محفوظ تھا تاہم نئے نیٹ ورکس قائم ہونے کے بعد جموں میں فوج کے خلاف گھات لگانے کے واقعات زیادہ سامنے آئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان جگہوں کو نشانہ بنانا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے جہاں سے انڈین افواج کو نکالا گیا ہے اور دیگر شورش زدہ سرحدی علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے، خاص طور پر چینی سرحد کے ساتھ۔

جموں کے علاقے میں شورش کا خوف اس قدر زیادہ ہو گیا ہے کہ یہاں متنازع مقامی سویلین ملیشیا قائم کی گئی ہے جسے ریاست خودکار اور نیم خودکار رائفلوں سے لیس کر رہی ہے۔ یہ ملیشیا، جسے ویلج ڈیفنس گارڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، 1990 کی دہائی میں بھی بنائی گئی تھی لیکن یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ریپ، قتل اور بھتہ خوری کے لیے بدنام تھی۔

اس ملیشیا میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے 45 سالہ راج کمار کا کہنا ہے کہ ’جموں میں عسکریت پسندی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اس لیے ہم گاؤں میں دن رات گشت کرتے ہیں اور عسکریت پسندوں پر نظر رکھتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ان سے مزید ہتھیار اور تربیت کا وعدہ کیا ہے۔

ان کے بقول: ’عسکریت پسندوں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور تربیت ہے، اسی لیے ہم حکومت سے اضافی مدد مانگ رہے ہیں۔ اس بار ہم زیادہ خوفزدہ ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا