انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے انتخابات: اس بار کیا مختلف ہے؟

اس سے قبل اسمبلی انتخابات ہوتے تھے تو انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر ایک مکمل ریاست ہوتی تھی، اس بار ایسا نہیں ہے۔

13 مئی2024 کو کشمیر کے شہر گاندربل میں انڈین عام انتخابات کے چوتھے مرحلے کی ووٹنگ کے دوران ایک انتخابی اہلکار ایک پولنگ سٹیشن پر ایک ووٹر کی انگلی پر سیاہی سے نشان لگا رہا ہے (اے ایف پی)
 

چند روز قبل الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا شیڈول جاری کیا ہے جو تین مراحل میں ہو رہے ہیں۔

پہلے مرحلے کے انتخابات 18 ستمبر جبکہ تیسرے اور آخری کے یکم اکتوبر کو اختتام پذیر ہوں گے۔ جموں و کشمیر میں لگ بھگ چھ سال کے گورنر راج کے بعد انتخابات ہو رہے ہیں۔ آخری اسمبلی انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔ اس اسمبلی کی پانچ سال کی آئینی مدت 2019 میں مکمل ہونی تھی تا ہم 2018 میں اپنی معیاد سے قبل ہی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی۔ 

اس کے بعد پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئین ہند میں خصوصی پوزیشن تبدیل کر کے اور ریاست کا درجہ گھٹا کر مرکز کے زیر انتظام دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا جن کو یونین ٹیریٹریز کہا جاتا ہے۔ یہ دو یونین ٹیریٹریز جموں و کشمیر اور لداخ ہیں۔

2019 کے بعد لیفٹیننٹ گورنر کا دورانیہ بھی بڑھتا گیا اور اس طرح لگ بھگ پچھلے چھ سالوں سے جموں و کشمیر اور لداخ براہ راست لیفٹیننٹ گورنر کے رحم و کرم پر ہے۔ 

ان انتخابات میں پہلے سے کیا مختلف ہے؟

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ جموں و کشمیر میں کبھی پہلے گورنر راج نہیں لگا۔ پہلی دفعہ گورنر راج 1977 میں شیخ عبداللہ کی حکومت گرنے پر لگا تھا اور یوں کل آٹھ بار گورنر راج لگ چکا ہے۔ سب سے لمبے دورانیے والا گورنر راج 1990 تا 1996 تھا۔ یہ وقت انتہائی افراتفری کا تھا جب عسکریت پسندی عروج پر تھی اور اسی دوران کشمیری پنڈتوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر در بدر ہونا پڑا۔ 

لیکن ماضی میں جب بھی گورنر راج کے بعد الیکشن ہوتے تھے تو ماحول آج کے مقابلے میں کافی مختلف ہوتا تھا۔ اس سے قبل اسمبلی انتخابات ہوتے تھے تو جموں و کشمیر کا آئین ہند کے ماتحت اپنا آئین اور جھنڈا ہوتا تھا اور جموں و کشمیر ایک مکمل ریاست ہوتی تھی۔ حالیہ انتخابات ایک ایسے ماحول میں ہو رہے ہیں جس میں جموں و کشمیر براہ راست مرکز کے زیر انتظام ایک یونین ٹیریٹری ہے۔ 

یونین ٹیریٹری میں اسمبلی کی حیثیت

اس وقت انڈیا میں 28 ریاستیں اور نو یونین ٹیریٹریز ہیں۔ آئین ہند کے ساتویں شیڈول میں مرکز اور اس کی اکائیوں کے درمیان گورنننس اور پاور کو لے کر سبجکٹس تقسیم ہیں۔ یہ سبجکٹس تین لسٹ یعنی یونین لسٹ، سٹیٹ لسٹ اور کنکرنٹ لسٹ میں کلاسیفائی کیے گئے ہیں۔ یونین لسٹ میں شامل تمام 97 سبجکٹس پر پارلیمنٹ آف انڈیا (لوک سبھا، راجیہ سبھا) کا اختیار ہے کہ قانون سازی کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سٹیٹ لسٹ میں شامل 66 سبجکٹس پر ریاستی اسمبلیاں قانون سازی کرتی ہیں اور کنکرنٹ لسٹ میں کل 47 سبجکٹس ہیں جن پر پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیاں دونوں قانون سازی کر سکتی ہیں۔

کنکرنٹ لسٹ میں شامل اگر کسی سبجکٹس پر پارلیمنٹ اور ریاست کے مفاد کا ٹکراؤ ہو جائے یا دونوں کا آپس میں جھگڑا ہو تو پارلیمنٹ کا قانون بالاتر ہو گا۔ 

نو یونین ٹیریٹریز میں تین ایسی ہیں جہاں پر قانون ساز اسمبلیاں ہیں۔ یہ جموں و کشمیر، دہلی اور پوڈو چیری ہیں۔ یونین ٹیریٹریز کی اسمبلی بہت کمزور ہوتی ہے جس کے پاس ریاستی اسمبلی کے برعکس محدود اختیارات ہوتے ہیں۔ چونکہ یونین ٹیریٹری مرکز کے زیر انتظام ہوتا ہے اس لیے ساتویں شیڈول میں شامل زیادہ تر امور پر مرکز کا ہی کنٹرول ہوتا ہے۔

یہ اس وقت زیادہ تشویش ناک روپ دھار لیتی ہے جب مرکز اور یو ٹی میں دو الگ الگ جماعتوں کی حکومتیں ہوں اور ان کی آپس میں بالکل بھی نہ بنتی ہو۔ 

دہلی اور مرکز کی کشمکش اس کی واضح مثال ہے۔ اس وقت دہلی میں اروند کیجریوال کی حکومت ہے لیکن مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی۔ کیجریوال متعدد بار دہلی کو ریاست کا درجہ دینے کی مانگ بھی کر چکے ہیں۔ دہلی کے اندر بیوروکریسی اور پولیس براہ راست مرکز کے زیر اہتمام ہے اور کیجریوال چیف منسٹر ہوتے ہوئے بھی بے بس ہوتے جس کا کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ 

دہلی کی طرح اس وقت جموں و کشمیر بھی ایک یونین ٹیریٹری ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ آنے والی اسمبلی آزادی کے بعد جموں و کشمیر کی تاریخ کی کمزور ترین اسمبلی ہو گی۔ گذشتہ مہینے بجٹ سیشن کے دوران پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات کو اور بڑھا دیا ہے۔

ادھر مین سٹریم سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اپنے انتخابی منشور میں جموں و کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت بحال کرنے، اور ریاست کا درجہ واپس دلانے کی بات کی ہے۔

بی جے پی یہ وعدہ تو کرتی ہے کہ موزوں وقت آنے پر اس کو ریاستی درجہ دے دیا جائے گا تاہم اس کی حکمت عملی واضح نہیں ہے اور نہ ہی یہ سمجھ آ سکی ہے اس کے نزدیک موزوں وقت کی کیا تعریف ہے۔ 

نوٹ: محمد ارشد چوہان دہلی میں مقیم صحافی اور کالم نگار ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا