دنیا بھر میں مالیاتی خدمات مہیا کرنے والی برطانوی کمپنی ارنسٹ اینڈ ینگ (ای وائے) کی ایک ملازمہ کی مبینہ طور پر زیادہ کام باعث موت نے انڈیا کی بڑی فرمز میں کام کے کلچر پر نئی بحث چھڑ دی ہے۔
26 سالہ انا سیبسٹین پیرائیل نے مغربی ریاست مہاراشٹر کے شہر پونے میں ای وائے گلوبل کی ایک رکن فرم SR Batliboi میں بطور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کام کیا۔
ملازمت کے چار ماہ بعد انا پیرائیل کی موت ہو گئی۔ انا کے والد نے دی نیوز منٹ کو بتایا کہ ان کی موت ’ایسڈ ریفلوکس، کام کے دباؤ اور کام کے بوجھ سمیت متعدد مسائل‘ کی وجہ سے ہوئی۔
ان کی والدہ انیتا آگسٹین کی جانب سے ای وائے انڈیا کے سربراہ کو لکھے گئے خط کے مطابق انا نے مارچ میں ای وائے پونے میں کام کرنا شروع کیا تھا، لیکن ’کام کے بوجھ، نئے ماحول اور طویل گھنٹوں تک کام نے ان کو جسمانی، جذباتی اور ذہنی نقصان پہنچایا۔‘
انیتا نے بتایا کہ کس طرح وہ جولائی میں انا کو ڈاکٹر کے پاس لے گئیں جب انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً ایک ہفتے سے ’سینے میں درد‘ کا سامنا کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر نے انا کو اینٹی سیڈز تجویز کیں اور خبردار کیا کہ وہ ’کافی نیند نہیں لے رہی تھیں اور دیر سے کھانا کھا رہی تھیں۔‘
انیتا نے لکھا کہ اس کے باوجود ان کی بیٹی نے ’رات گئے تک، یہاں تک کہ ویک اینڈز پر بھی کام جاری رکھا اور سکون کی سانس نہیں لی۔‘
انہوں نے لکھا: ’انا کا انجام اس ورک کلچر پر روشنی ڈالتا ہے جو کام کے پیچھے انسانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے زیادہ کام کی تعریف کرتا ہے۔
’یہ صرف میری بیٹی کے بارے میں نہیں، یہ ہر اس نوجوان پیشہ ور ملازم کے بارے میں ہے جو امید اور خواب لیے ای وائے کمپنی میں صرف غیر حقیقی توقعات کے بوجھ تلے کچلنے کے لیے شامل ہوتا ہے۔
’امید ہے کہ انا کی موت ای وائے کے لیے ایک ویک اپ کال کے طور پر کام کرے۔‘
انیتا نے کہا کہ ای وائے سے کسی نے بھی انا کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد بھی انہوں نے کمپنی انتظامیہ سے رابطہ کیا لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
دوسری جانب ای وائے نے کہا کہ ’کام کا دباؤ‘ انا کی موت کی وجہ نہیں تھی۔
ای وائی انڈیا کے سربراہ راجیو میمانی نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’ہمارے پاس تقریباً ایک لاکھ ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ایک کو محنت کرنی پڑتی ہے۔
’انا نے ہمارے ساتھ صرف چار مہینے کام کیا۔ اسے کسی بھی دوسرے ملازم کی طرح کام الاٹ کیا گیا تھا۔ ہمیں یقین نہیں کہ کام کا دباؤ ان کی جان لے سکتا ہے۔‘
دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ شیئر کیے گئے ایک بیان میں ای وائی انڈیا نے کہا: ’ہم جولائی 2024 میں انا کے المناک اور بے وقت موت پر بہت غم زدہ ہیں اور ہماری دلی ہمدردی سوگوار خاندان کے ساتھ ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’انا 18 مارچ، 2024 کو پونے میں ای وائے گلوبل کی ایک ممبر فرم SR Batliboi میں آڈٹ ٹیم میں شمولیت کے بعد وہ صرف چار ماہ کی مختصر مدت کے لیے اس کا حصہ رہیں۔
’ان کی موت ہم سب کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اگرچہ کوئی بھی اقدام ان کے خاندان کو ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کر سکتا، ہم نے ہر طرح کی مدد فراہم کی، جیسا کہ ہم ہمیشہ مصیبت کے اس وقت کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’ہم خاندان کے خط کو انتہائی سنجیدگی اور عاجزی کے ساتھ لے رہے ہیں۔
’ہم تمام ملازمین کی فلاح و بہبود کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور انڈیا میں ای وائے ممبر فرمز میں اپنے ایک لاکھ ملازمین کی بہتری اور ایک صحت مند کام کی جگہ فراہم کرنے کے طریقے تلاش کرتے رہیں گے۔‘
انا کی موت اور ان کی والدہ کے خط نے آن لائن غم اور غصے کو جنم دیا جہاں اس صنعت کے پیشہ ور افراد، بشمول ای وائے سے تعلق رکھنے والے ملازمین نے غیر موزوں ماحول اور کام کے بوجھ کے اپنے تجربات شیئر کیے۔
ایک ساتھی ملازم نے ریڈ اٹ پر دعویٰ کیا کہ انہیں انا کی موت کی اطلاع ایک ’سینٹرلائزڈ میل کے ذریعے دی گئی تھی جس میں انہوں نے ان کی لنکڈ ان تصویر کے ساتھ ایک روایتی سا مختصر پیغام جاری کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ وہ پہلے سے ہی کسی بیماری میں مبتلا تھیں جس سے ان حالت مزید خراب ہوگئی۔‘
انہوں نے انیتا کے خط جیسی باتیں شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’ہم مصروف سیزن میں روزانہ اوسطاً 16 گھنٹے اور غیر مصروف سیزن میں دن میں 12 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ کوئی ویک اینڈ یا عوامی تعطیلات نہیں۔
’ای وائے سالانہ رضاکارانہ طور پر اپنے ملازمین کو بحالی کے لیے ایک دن کی چھٹی کا اعلان کرتی ہے۔ اور ہاں آپ نے صحیح اندازہ لگایا! یہاں تک کہ یہ چھٹی بھی نہیں ملتی۔
’ہم اس دن بھی دفتر میں کام کرتے ہیں! زیادہ کام ہی ترقی پانے کا واحد طریقہ ہے، خود بھی کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ۔‘
کے پی ایم جی میں چار سال تک کام کرنے والے ایک ملازم نے بتایا کہ وہ کرونا میں مبتلا ہونے کے باوجود کام کرتے رہے یہاں تک کہ ان سے سیدھا بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا کیونکہ انہیں بخار اور کمزوری تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کے مینیجرز کو بتایا گیا کہ میں نے اس مخصوص پراجیکٹ پر کام مکمل نہیں کیا حالانکہ میں نے کووڈ پازیٹو ٹیسٹ رپورٹ جمع کرائی تھی۔‘
’بگ فور‘ اکاؤنٹنگ فرمز، ڈیلوئٹ، پی ڈبلیو سی، کے پی ایم جی اور ای وائی کے کئی دیگر ملازمین نے سوشل میڈیا پر اسی طرح کے حالات بیان کیے جن میں 14 سے 18 گھنٹے کام کے دنوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے جب کہ ان کے ناموں کی بجائے انہیں ’سورس‘ کے طور پر حوالہ دیا گیا اور کام کے بوجھ اور تناؤ سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں مینیجرز نے بہت کم یا بلکل تعاون نہیں کیا۔
انا کی موت پر ای وائی انڈیا کے سربراہ راجیو میمانی کے جواب پر بھی آن لائن تنقید کی جا رہی ہے، جس میں بہت سے لوگوں نے صنعت کے رہنماؤں کے رویوں اور ماضی کے بیانات کو سامنے لایا گیا جس میں ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے انہوں نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔
بہت سے لوگوں نے انفوسس کے شریک بانی نارائن مورتی کے اکتوبر 2023 کا بیان شیئر کیا جس میں بتایا گیا کہ انڈیا کی پیداواری صلاحیت عالمی سطح پر سب سے کم ہے اور کہا گیا تھا کہ انڈین ملازمین کو ملک کی ترقی کے لیے ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملازمین کے تحفظات کی عدم موجودگی اور کام کی جگہ پر دباؤ انڈیا میں طویل عرصے سے تشویش کا باعث رہا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی 51 فیصد افرادی قوت ہفتے میں 49 گھنٹے سے زیادہ لاگ ان رہتی ہے۔
زیادہ اوقات کام کرنے کے حوالے سے فہرست میں انڈیا بھوٹان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز اور ڈیجیٹل ہیلتھ کیئر پلیٹ فارم میڈی بڈی (MediBuddy) کی جولائی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تقریباً 62 فیصد انڈین ملازمین کام سے تناؤ اور دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔
سماجی تنظیم ’نئے نیتی‘ فاؤنڈیشن کے لیبر وکیل فیڈل سیبسٹین نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہاں یاد رکھنے والی اہم بات یہ ہے کہ تقریباً تمام انٹری لیول کے ملازمین انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔
’اس لیے تقریباً ہر ملازم، جو نگران کردار میں نہیں ہے، اس کی 'کارکن' کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے اور ان پر اوور ٹائم کا اصول لاگو ہوتا ہے۔
’اگر یہ اوور ٹائم ادا نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ بنیادی طور پر چوری ہے۔‘
1948 کے فیکٹریز ایکٹ اور 1948 کے منیمم ویج ایکٹ کے مطابق ایسے قوانین جو بالترتیب انڈیا میں ملازم کے کام کے اوقات اور اوور ٹائم کے قوانین سے متعلق ہیں، اگر کوئی دن میں آٹھ سے نو گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہے یا ایک ہفتے میں 48 گھنٹے سے زیادہ تو وہ اضافی گھنٹوں کے لیے دوگنی ادائیگی کے حقدار ہیں۔
استحصال کے شکار ملازمین کے لیے فیڈل سیبسٹین نے کہا کہ وہ اوور ٹائم تنخواہ کے حوالے سے داخلی طور پر اپنی انتظامیہ سے بات کر سکتے ہیں۔
اگر وہ اس میں ناکام ہو جاتے ہیں اور انہیں انتقامی کارروائی کا اندیشہ ہو، تو ملازمین کو تب بھی تحفظ حاصل ہے۔ ملازم لیبر کمشنر سے اپنی شکایت کر سکتا ہے جو یہ فیصلہ کر سکتا کہ اوور ٹائم میں ملازم کو کتنی اضافی رقم ملتی ہے اور فرم کو کیا جرمانہ ادا کرنا چاہیے۔
فیڈل سیبسٹین نے یونین کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا جو ملازمین محسوس کرتے ہیں کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے، ان کے لیے کارروائی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی طور پر مذاکرات کرنے یا سرکاری طور پر مطالبات اٹھانے کے لیے یونین کو رجسٹر کرنے کی کوشش کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ یونین کی غیر موجودگی میں اوور ٹائم تنخواہ پر مذاکرات کے لیے انتظامیہ سے داخلی طور پر رابطہ کرنے والے ملازمین کو تحریری طور پر ایسا کرنا چاہیے۔
تاہم اس طرح کی شکایات عام طور پر انتقامی کارروائیوں اور بہت سے معاملات میں، برطرفی کا باعث بنتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک رجسٹرڈ یونین جو کمپنی کے خلاف قانونی چارہ جوئی یا مفاہمت کرتی ہے، وہ ملازم کو ایسے مطالبات اٹھانے کی وجہ سے برطرف ہونے سے بچائے گی کیونکہ انتظامیہ کو ایسی برطرفی سے پہلے عدالت یا اتھارٹی کی اجازت لینا ہوگی۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے تبصرہ کے لیے ڈیلوئٹ، پی ڈبلیو سی، کے پی ایم جی اور ای وائی سے رابطہ کیا ہے۔
انڈیا کی جونیئر لیبر منسٹر شوبھا کرندلاجے نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ وزارت ’غیر محفوظ اور استحصال پر مبنی کام کے ماحول کے الزامات کی مکمل تحقیقات کرے گی۔‘
© The Independent