انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات ’مزاحمت کا واحد طریقہ‘

اسمبلی انتخابات تین مراحل میں ہو رہے ہیں، پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو 24 حلقوں میں ووٹنگ ہوئی جن میں جنوبی کشمیر اور جموں کے علاقے شامل تھے۔ پہلے مرحلے میں تقریباً 60 فیصد ووٹنگ ہوئی جبکہ جموں کے علاقوں میں کشمیر کے مقابلے میں زیادہ ووٹنگ ہوئی۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 10 سال بعد پہلی بار اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں، اور یہ انتخابات انڈین حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پہلے انتخابات ہیں۔

یہ انتخابات اس لیے اہم ہیں کیونکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی اسمبلی میں کوئی منتخب نمائندگی نہیں تھی اور جون 2018 سے یہ علاقہ گورنر راج کے تحت تھا۔

مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مقامی کشمیری سیاسی جماعت پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد توڑ دیا تھا، تب سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر گورنر راج کے تحت ہے۔ 2019 میں انڈین حکام نے کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا اور اسے براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں لے لیا۔

اسمبلی انتخابات تین مراحل میں ہو رہے ہیں، پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو 24 حلقوں میں ووٹنگ ہوئی جن میں جنوبی کشمیر اور جموں کے علاقے شامل تھے۔ پہلے مرحلے میں تقریباً 60 فیصد ووٹنگ ہوئی جبکہ جموں کے علاقوں میں کشمیر کے مقابلے میں زیادہ ووٹنگ ہوئی۔

یہ انتخابات کشمیری نوجوانوں کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں، جیسے کہ 29 سالہ عاصم، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ جس طرح کی صورتحال اس وقت انتخابات کے گرد ہے، ہمیں ان لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے جو کم از کم ہماری بات سن سکیں کیونکہ مقامی یا سیاسی مسائل پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم ووٹ نہیں دیں گے تو بی جے پی جیت جائے گی اور پھر ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت یہی ایک طریقہ ہے کہ مزاحمت کی جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کشمیر میں یہ انتخابات اس وقت دلچسپ ہو گئے ہیں جب دہلی کی جیل میں قید رکن پارلیمنٹ انجینیئر رشید کو عبوری ضمانت پر رہا کیا گیا تاکہ وہ اپنی عوامی اتحاد پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلا سکیں۔ ان کا قافلہ جب سری نگر سے شمالی کشمیر کے علاقے اُڑی کی طرف انتخابی ریلی کے لیے روانہ ہوا، جو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔ انجینئر رشید کی گاڑیاں سری نگر کے مضافات میں رک گئیں، جہاں وہ عدالت میں آن لائن سماعت میں شرکت کے لیے کوئی جگہ تلاش کر رہے تھے کیونکہ وہ دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور پچھلے پانچ سالوں سے انڈیا کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

کشمیر کی تمام مقامی سیاسی جماعتیں، بشمول بڑی جماعتیں جیسے نیشنل کانفرنس (این سی) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ این سی کا مرکزی حزبِ اختلاف کے اتحاد ’انڈیا الائنس‘ کے ساتھ اتحاد ہے، جس کی قیادت راہل گاندھی کر رہے ہیں۔ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور ایسے امیدوار بھی شامل ہیں جنہیں جماعتِ اسلامی کی حمایت حاصل ہے، جو گزشتہ 30 سالوں میں کشمیر کی سیاسی تاریخ میں کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکی۔

انتخابات کا دوسرا مرحلہ 25 ستمبر کو سری نگر اور وسطی کشمیر میں ہو رہا ہے، جبکہ تیسرا مرحلہ یکم اکتوبر کو ہوگا، اور نتائج آٹھ اکتوبر کو متوقع ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا