انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات، بی جے پی کی مشکلات

یہ انتخابات ایک دہائی کے عرصے کے بعد ہو رہے ہیں اور اس عرصے میں جموں کشمیر میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔

25 مئی 2024 کو اننت ناگ میں پی ڈی پی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی انڈیا کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے آتے ہوئے (توصیف مصطفیٰ/ اے ایف پی)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے لیے عدالت عظمیٰ کی 30 ستمبر کی طے شدہ ڈیڈ لائن جوں جوں قریب آ رہی ہے، وفاق میں قائم حکمران اتحاد کی سرپرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے مشکلات بڑھتی نظر آرہی  ہیں کیوں کہ کئی لحاظ سے ان انتخابات کے ساتھ بی جے پی کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔

جموں صوبے کے بعض سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں نے تو پہلے ہی دلی میں قائم بی جے پی سرکار کے اس دعوے پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے کہ اس کی کاوشوں کے نتیجے میں جموں کشمیر میں امن قائم ہوچکا ہے اور دہشت گردی اپنی آخری ہچکیاں لی رہی ہیں۔

مجوزہ انتخابات کے دوران امن و امان کی صورت حال کو قائم رکھنا مرکزی سرکار کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

یہ انتخابات ایک دہائی کے عرصے کے بعد ہو رہے ہیں اور اس عرصے میں جموں کشمیر میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔

پچھلی بار دسمبر 2014 میں جب یہاں اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے تھے، اس وقت جموں کشمیر کو نہ صرف ایک ریاست کا درجہ حاصل تھا بلکہ اسے انڈین آئین کے تحت خصوصی حیثیت بھی حاصل تھی۔

جموں کشمیر انڈیا کی ان چند ایک ریاستوں میں شمار ہوا کرتی تھی، جہاں کی غیر منقولہ جائدادوں کی خرید و فروخت صرف مقامی پشتنی باشندے ہی کرسکتے تھے۔

پچھلے انتخابات میں جموں کشمیر کی اسمبلی 87 اراکین پر مشتمل تھی۔ اس وقت کے انتخابات میں پی ڈی پی  28 نشستیں جیت کر جموں کشمیر کی سب سے بڑی پارٹی کے بطور ابھری تھی۔

جبکہ بی جے پی  اور نیشنل کانفرنس نے بالترتیب 25 اور 15 سیٹیوں پر اپنی جیت درج کرائی تھی۔

ان انتخابات کے نتیجے میں جموں کشمیر میں پی ڈی پی کے بانی سربراہ مفتی محمد سید کی سربراہی میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط سرکار قائم کی گئی۔

سال 2016  میں مفتی انتقال کرگئے تو ان کی صاحبزادی محبوبہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئیں۔

لیکن صرف دو سال بعد جون 2018 میں بی جے پی نے اپنی سپورٹ واپس لے کر مخلوط سرکار گرا دی اور اس وقت سے لیکن اب تک یعنی چھ سال سے جموں کشمیر کا انتظام و انصرام گورنر ہاؤس کی وساطت سے نئی دلی براہ راست چلا رہی ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے جموں کشمیر پر حکمران بی جے پی کا نئی دلی سے براہ راست کنٹرول حاصل ہے۔

پانچ اگست 2019 کو بی جے پی حکومت نے ایک یک طرفہ پالیمانی کارروائی میں جموں کشمیر تنظیم نو ایکٹ کو پاس کرکے نہ صرف جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت چھین لی بلکہ اس کا ریاست کا درجہ ختم کر کے اسے وفاق کے زیر انتظام دو خطوں یعنی جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا۔

نئی دلی کے اس غیر معمولی اقدام کے خلاف دائر کردہ عرض داشتوں کی شنوائی کے بعد سپریم کورٹ نے گذشتہ سال دسمبر میں حکومت ہند کے فیصلے کو آئینی طور پر درست قرار دیتے ہوئے اس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ تاہم اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کو ہدایات دیں کہ وہ 30  ستمبر 2024  تک جموں کشمیر میں الیکشن کرا کے یہاں ایک عوامی حکومت قائم کرے۔

بی جے پی کے لیے چیلنج

بی جے پی نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پانچ  اگست 2019 کے اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا ہے بلکہ جموں کشمیر میں دہشت گردی کا مکمل طور قلع قمع بھی ہوگیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دوران یہاں یہ تاثر بھی قائم ہوگیا کہ سید محمد الطاف بخاری کی سربراہی والی اپنی پارٹی، سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس اور سابق کانگریس رہنما غلام نبی آزاد کی جماعت ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی, بی جے پی کی بی ٹیموں کی حیثیت سے متحرک ہوگئی ہیں اور ان کا کردار کسی بھی طرح اسمبلی انتخابات بی جے پی کو مضبوط بنانا ہے۔

لیکن حالیہ پارلیمانی انتخابات میں یہ تینوں جماعتیں بری طرح پٹ گئیں۔ جبکہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی جماعتوں کی کارکردگی بہتر رہی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اسمبلی انتخابات میں بھی یہ دو علاقائی جماعتیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں تو حکومت کی لگام ان میں کسی ایک جماعت کے ہاتھ میں آسکتی ہے۔ اور اس کا مطلب جموں کشمیر کے انتظام پر بی جے پی کی گرفت کم ہونا ہوگا۔

نئی دلی کی جانب سے جموں کشمیر تنظیم نو ایکٹ میں حالیہ ترمیم، جس کے ذریعے لیفٹینٹ گورنر کو مزید اختیارات تفویض کئے گئے، کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی آنے والے اسمبلی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو کمزور اور نئی دلی کی محتاج رکھنا چاہتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 12 جولائی  کو مرکزی وزارت داخلہ نے ایک ایگزیکٹو نوٹیفکیشن کے ذریعے جموں کشمیر کے لیفٹینٹ گورنر کو مزید اختیارات تفویض کیے۔

اس قانونی تبدیلی کے بعد اب  لیفٹینٹ گورنر کو آل انڈیا سروسز کے کام کاج کے بارے میں حتمی فیصلہ لینے کا اختیار ہوگا۔ یعنی بیوروکریسی اور پولیس فورس ایک لحاظ سے لیفٹینٹ گورنر کے ماتحت ہوگی۔

اس کے علاوہ انسداد بدعنوانی بیورو، ڈائریکٹوریٹ آف پبلک پراسیکیوشن، جیل خانہ جات اور جموں کشمیر فرانزک سائنس لیبارٹری بھی لیفٹینٹ گورنر کے کنٹرول میں ہوں گے۔ علاوہ اس کے لیفٹینٹ گورنر کو جموں کشمیر میں ایڈوکیٹ جنرل اور دیگر لا افسران کی تعیناتی کی حتمی منظوری کا اختیار بھی حاصل ہوگیا۔

مبصرین کا کہنا ہےکہ ان قانونی تبدیلیوں کے بعد اسمبلی انتخابات کے نتیجے میںقائم ہونے والی حکومت عملی طور پر بے اختیار ہوگی اور اصل طاقت گورنر ہاوس نئی دلی کے پاس رہے گی۔

 دیکھنا یہ ہے کہ کیا مقامی جماعتیں نئی دلی کی ان آئینی ترمیمات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتی ہیں یا اس کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

مقامی جماعتوں کو ان فیصلوں کو قبول کرنے پر آمادہ کرنا بی جے پی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

بی جے پی کے لیے ایک اور پریشان کن بات جموں کشمیر بالخصوص جموں کشمیر سرحدی علاقوں میں تشدد کی وارداتوں میں حالیہ اضافہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس سال اب تک جموں کشمیر میں تشدد کی 11  بڑی وارداتیں رونما ہوئیں۔  جموں خطہ پہلے وادی کے مقابلے میں قدرے پر امن خطہ مانا جاتا تھا۔ انتخابات کے دوران تشدد کو قابو میں رکھنا بی جے پی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔

کالم نگار طارق علی میر کا تعلق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے اور وہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر