صوبہ سندھ کے وزیرداخلہ ضیاالحسن النجار نے جمعرات کو کہا ہے کہ عمر کوٹ توہین مذہب کیس کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ضیاالحسن النجار نے کہا کہ ’عمرکوٹ واقعے میں پولیس اہلکاروں پر جعلی مقابلے کا الزام تھا۔ انکوائری میں الزام درست ثابت ہونے پر اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔‘
ضیاالحسن النجار کے مطابق: ’میں نے احکامات دیے تھے کہ عمرکوٹ سانحے کی انکوائری جلد مکمل کریں۔
’تفصیلی انکوائری کی گئی، سی سی ٹی وی اور گاڑیوں کے ٹریکرز سے بھی مدد لی گئی، سانحے کی رپورٹ 31 صفحات پر مشتمل ہے۔‘
ان کے مطابق: ’پولیس نے جعلی مقابلہ کیا، ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) اور ماتحت عملہ کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہے۔‘
انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز کی لاش پولیس کی موجودگی میں جلائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ملوث افسران کے خلاف ایف آئی آر کا حکم دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت ہے۔
’کمیٹی نے فائنڈنگز دیں ہیں کہ مقتول کی خاندان مقدمہ درج کروائے۔ اگر خاندان والوں نے مقدمہ درج نہیں کروایا تو حکومت فریق بنے گی۔‘
ان کی پریس کانفرنس سے قبل یہ انکوائری رپورٹ سندھ حکومت کو پیش کی گئی تھی۔
یہ رپورٹ ڈی آئی جی حیدرآباد طارق رزاق دھاریجو اور ڈی آئی جی شہید بے نظیر آباد پرویز چانڈیو، ایس ایس پی شیراز نذیر عباسی پر مشتمل پولیس افسران نے وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کی۔
انکوائری رپورٹ ملنے کے بعد وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں رپورٹ پر غور کیا گیا اور وزیر اعلیٰ سندھ نے فیصلہ کیا کہ وزیر داخلہ رپورٹ پر پریس کانفرنس کر کے عوام کو اس سے آگاہ کریں۔
مبینہ توہین مذہب کا واقعہ کب پیش آیا؟
ڈاکٹر شاہ نواز کی جانب سے مبینہ توہین مذہب کی خبر گذشتہ منگل کو سوشل میڈیا پر آئی جس کے بعد عمر کوٹ کے کئی علاقوں میں احتجاج کیا گیا جبکہ بدھ کو اس واقعے کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی۔
پولیس نے منگل کو ہی مقامی مسجد کے پیش امام کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
18 اور 19 سمتبر کے درمیانی شب کو میرپورخاص کے سابق اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز کی پولیس مقابلے میں موت ہو گئی۔
پولیس کے مطابق جب لاش کو ان کے گاؤں جاہنرو لے جایا گیا تو وہاں موجود مشتعل افراد نے لاش لانے والی ایمبولنس کو گاؤں میں داخل ہونے نہیں دیا۔ جس کے بعد مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر ان کی لاش کو جلانے کی کوشش بھی کی۔
ڈاکٹر شاہ نواز کون تھے؟
ڈاکٹر شاہ نواز سول ہسپتال عمرکوٹ میں 18ویں گریڈ کے سرکاری ملازم تھے۔ مقدمے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مبینہ پولیس مقابلے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے معطل ہونے والے سابق اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس میر پور خاص کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’یہ واقعہ میرپورخاص ضلع کے سندھڑی تھانے کی حدود میں پیش آیا۔‘
کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کے مطابق: ’سندھڑی تھانے کی پولیس معمول کے گشت کے بعد پولیس پکٹ پر پہنچی تو موٹرسائیکل سوار دو مسلح افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کر دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس کی جوابی فائرنگ میں ایک ملزم زخمی اور دوسرے کی موت ہو گئی۔ لاش ہسپتال منتقل کرنے پر مرنے والے ملزم کی شناخت توہین مذہب کے مقدمے میں نامزد ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کے طور پر ہوئی۔‘
جب اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سے پولیس فائرنگ میں زخمی ملزم کی تفصیلات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں جواب میں کہا : ’مجھے نہیں معلوم کہ ملزم کا کیا نام ہے اور وہ ابھی کہاں ہے۔‘
تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات
انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق: توہین مذہب کی واقعے کے بعد جب مقدمہ دائر ہو گیا تو عوام کی جانب سے ملزم کو 48 گھنٹے میں گرفتاری کے الٹیمیٹم کے باعث پولیس پر پریشر بڑھ رہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 17 ستمبر کی رات کو ایس ایس پی عمر کوٹ کو ملزم کی موبائل فون کی مٹیاری میں لوکیشن ملنے کے بعد گرفتاری کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ تاہم رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ملزم کے فون لوکیشن ان کے خاندان والوں سے کس نے حاصل کی۔
گرفتاری ٹیم مٹیاری ضلع کے لیے روانہ ہوئی اور شہید بے نظیر آباد ضلع کی فون لوکیٹر ٹیم سے مدد لی گئی۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ ملزم کی لوکیشن کراچی کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملزم کی لوکیشن کراچی میں ٹریس ہونے کے بعد گرفتاری کرنے والی ٹیم کراچی پہنچی۔ کراچی پہنچنے پر ٹیم کو ملزم شاہ نواز کی لوکیشن پہلے گارڈن اور بعد میں صدر میں دیکھی گئی۔ مگر تب تک ملزم کا موبائل بند ہو گیا تھا۔ جس کے بعد ملزم کے ایک اور فون نمبر کی لوکیشن پہلے طارق روڈ پر نظر آئی مگر بعد میں فون بند ہوگیا۔ جس کے بعد پولیس ٹیم لیاری میں بغدادی تھانے چلی گئی۔
رپورٹ کے مطابق ملزم رات دو بجے سوشل میڈیا پر آئے کہ وہ ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ جس پر ٹیم نے’ہوٹل آئی ایپ‘ کے ذریعے ملزم کا سٹیٹس چیک کیا اور ایپ کے مطابق ماضی میں ملزم کی لیاری کے متعدد ہوٹلوں میں رہائش کی تصدیق ہوئی۔ ان میں اکثریت ہوٹل لیاری کے بغدادی پولیس سٹیشن کے حدود میں واقع تھے۔ مگر ان ہوٹل میں سے کسی پر ملزم کی اس رات کی انٹری نہیں تھی۔
رپورٹ کے مطابق ٹیم نے ’ہوٹل آئی ایپ‘ سے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا کیونکہ ملزم شاہ نواز نے فروری 2024 میں اسی ہوٹل میں کمرا بک کیا تھا۔ پولیس ٹیم نے جب ہوٹل انتظامیہ کو ملزم کی تصاویر دکھائیں تو ہوٹل انتظامیہ نے تصدیق کی کہ وہ اس ہوٹل میں کمرہ بک کرا چکے ہیں۔ جس کے بعد ٹیم نے ملزم کی اسی رات سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو دکھائی تو ہوٹل کے ایک ملازم ثنااللہ نے بتایا کہ یہ ویڈیو نزدیکی ہوٹل کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیم مذکورہ ہوٹل پہنچی، جہاں ملزم کی جانب سے کمرے کے بکنگ کی انٹری کی گئی تھی۔ جس پر ٹیم نے ہر ایک کمرے کو چیک کرنا شروع کیا اور کمرہ نمبر 304 کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ملزم شاہ نواز نے کھولا اور سب انسپیکٹر ستار نے اُن کی شناخت کی اور اپنا تعارف کروایا اور اُن کو رضامند کیا کہ وہ پولیس کے ساتھ عمرکوٹ چلیں۔
رپورٹ کے مطابق چار بج کر 25 منٹ پر شاہ نواز کو حراست میں لیا گیا اور ان کے چہرے پر کپڑا ڈال دیا اور گرفتاری کی خبر ایس ایس پی عمرکوٹ کو دی گئی، جس پر ایس ایس پی عمر کوٹ نے ہدایت کی کہ ملزم کو لے کر عمر کوٹ روانہ ہوں۔
رپورٹ کے مطابق جب پولیس حیدرآباد پہنچی تو ایس ایس پی عمرکوٹ نے سب انسپکٹر کو حکم دیا کہ عمرکوٹ میں صورتحال انتہائی گمبھیر ہے، ملزم شاہ نواز کو وہاں لے جانا محفوظ نہیں، اس لیے ملزم کو میرپور خاص پولیس کے حوالے کیا جائے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ جب ٹیم ملزم کے ساتھ میرپورخاص پہنچی تو ایس ایس پی عمرکوٹ نے ٹیم کو جمڑاؤ پولیس پوسٹ پر رکنے کے لیے کہا تاکہ ملزم کو میرپور خاص پولیس کے حوالے کیا جاسکے۔ وہاں ایک سفید رنگ کی ویگو پولیس حکام کے ساتھ پہنچی اور شاہ نواز کو ان کے حوالے کیا گیا اور ٹیم عمرکوٹ کے لیے روانہ ہو گئی۔
مگر رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میرپورخاص پولیس ٹیم، جس نے ملزم کو حراست لیا، اس ٹیم میں کون کون شامل تھا۔
تحقیقات کے مطابق میر پور خاص ٹول پلازہ کے سی سی ٹی وی کیمروں کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ایس ایس پی میر پور خاص کی سرکاری ویگو وہاں سے نو بج کر 19 منٹ پر گزری اور ساڑھے نو بجے واپس آئی۔ اسی دوران پولیس کی کوئی اور گاڑی کی آمد ورفت نہیں ہوئی تو ظاہر ہے کہ ایس ایس پی میرپور خاص کی سرکاری ویگو گاڑی میں ڈاکٹر شاہنواز کی کسٹڈی لی گئی۔
دس بج کر 50 منٹ پر سی آئی اے میر پورخاص ڈاکٹر شاہ نواز کو لے کر روانہ ہوئی اور 19 ستمبر رات بارہ بج کر 18 منٹ پر سبزل سٹاپ پر رکی جہاں ایس ایچ او سندھڑی انسپکٹر اپنے عملے سمیت پہنچے اور 12 بج کر 20 منٹ پر ڈاکٹر شاہ نواز پولیس کے پہلے سے تیار کردہ مقابلے میں ہلاک کر دیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کو ان کی جیب سے شناختی کارڈ، ایک موبائل فون اور ایک ہزار روپیہ نقد برآمد ہوا۔
کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ایک بج کر 20 منٹ پر ڈاکٹر شاہ نواز کی لاش سول ہسپتال میرپور خاص منتقل کی گئی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ایمبولینس میں عمرکوٹ بھیجی گئی۔ جب لاش کے ساتھ ایمبولینس ڈاکٹر شاہ نواز کے گاؤں جاہنرو پہنچی تو مشتعل افراد وہاں پہنچ گئے جنھوں نے ایمبولینس کو گاؤں میں آنے نہیں دیا۔
اس کے بعد لاش ایک نجی کار میں رکھ کر مقتول کی خاندانی زمین روانہ کی گئی۔ لاش کے گاؤں پہنچنے پر مشتعل افراد جمع ہو گئے اور پولیس کی موجودگی میں لاش کو ورثا سے چھین کر آگ لگا دی جس کے بعد خاندان کے افراد اور پولیس نے آدھی جلی ہوئی ہوئی لاش کو دفنایا دیا۔
پولیس کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق دوسرے دن 19 ستمبر کو بڑی تعداد میں لوگ ڈی آئی جی میر پور خاص اور ایس ایس پی کے دفتر میں جمع ہوئے اور ڈاکٹر شاہ نواز کی موت پر پولیس افسران کی تعریف کر کے انہیں ہیرو قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر شاہ نواز کے اہل خانہ سے تعزیت
22 ستمبر کو سندھ کے مختلف شہروں سے سینکڑوں افراد، جن میں قوم پرست رہنما، سماجی کارکن اور صوفی فن کار شامل تھے، ڈاکٹر شاہ نواز کے گاؤں جاہینرو پہنچے۔
انہوں نے ڈاکٹر شاہ نواز کے خاندان کے ساتھ فاتحہ خوانی کی اور اس واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔
اس کے بعد، تمام افراد ڈاکٹر شاہ نواز کی ادھ جلی لاش کو دفن کرنے کی جگہ پہنچے، جہاں لوگوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور دعا کی۔
اس موقع پر صوفی سنگر مانجھی فقیر نے صوفی کلام بھی گایا، جبکہ لوگوں نے قبر پر پھول نچھاور کیے اور اجرک بھی ڈالی۔
گذشتہ روز بھی خواتین سمیت ہزاروں افراد نے عمرکوٹ میں ریلی نکال کر پریس کلب پر احتجاج کر کے مطالبہ کیا کہ جعلی پولیس مقابلے میں ملوث اافسران کو سزا دی جائے۔