عمر کوٹ مبینہ پولیس مقابلہ: تحقیقات کے لیے سول سوسائٹی کا جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ

مختلف تنظیموں پر مشتمل سول سوسائٹی کے ممبران نے وزرات داخلہ سندھ کی جانب سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کو رد کیا اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا۔

عمرکوٹ میں توہین مذہب کے مقدمے میں نامزد ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی میرپورخاص پولیس کے مبینہ مقابلے میں موت پر کراچی کی مختلف تنظیموں نے ہفتے کو احتجاج کیا اور عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

آج کراچی پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکنان نے میرپورخاص کے پولیس مقابلے کو ’جعلی‘ قرار دیا۔

مختلف تنظیموں پر مشتمل سول سوسائٹی کے ممبران نے وزرات داخلہ سندھ کی جانب سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کو رد کیا اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے ڈی آئی جی میرپور خاص اور دیگر ملوث افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پریس کانفرنس میں شریک انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے کارکنان نے سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار کی طرف سے تشکیل دی گئی پولیس انکوائری کمیٹی کو مسترد کر دیا اور ایک حاضر سروس ہائی کورٹ کے جج سے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

پریس کانفرنس میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس، سندھ ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نیٹ ورک، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور تنظیموں کے نمائندوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ جس کے بعد پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے سندھ ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نیٹ ورک کے رہنما علی پلھ ایڈوکیٹ نے کہا: ’توہینِ مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز، جنہوں نے کراچی کے ایک ہوٹل میں پناہ لی تھی اور پولیس کی یقین دہانی پر عمرکوٹ پولیس کے سامنے سرنڈر کر دیا تھا۔

’بعد ازاں عمرکوٹ اور میرپورخاص پولیس کے مشترکہ جعلی مقابلے میں مارے گئے۔ یہ حقیقت سندھ اسمبلی میں وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے بھی تسلیم کی کہ ان کی ہدایات پر ایس ایس پی عمرکوٹ ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے کراچی گئے تھے۔

’یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ ملزم کے خلاف سندھڑی تھانے میں درج دونوں مقدمات جھوٹے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علی پلھ ایڈوکیٹ نے مطالبہ کیا کہ سید سردار علی شاہ کا بیان پولیس کے سامنے دفعہ 161 ضابطہ فوجداری اور مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 ضابطہ فوجداری کے تحت گواہ کے طور پر ریکارڈ کیا جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس افسران کے خلاف دفعہ 302 تعزیرات پاکستان (قتلِ عمد) کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور مقتول کے خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے۔

’کراچی میں عمرکوٹ پولیس کے ذریعے بنایا گیا مشیر نامہ (گرفتاری کا میمو) عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ معلوم ہو کہ کراچی سے ملزم کی گرفتاری میں کون ملوث تھا اور ملزم کی تحویل کس کو دی گئی تھی اور جعلی مقابلہ کس نے کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر شاہنواز کی والدہ اور پانچ بچوں سے رابطے میں ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو بیان دیا ہے کہ پولیس نے انہیں دھوکہ دیا اور ان کے عزیز کو قتل کر دیا جو سرنڈر ہو چکے تھے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے خواتین کے حقوق کی کارکن شیریں اسد نے کہا: ’پولیس، سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب رکن قومی اسمبلی اور مذہبی انتہا پسندوں کے گٹھ جوڑ کی مذمت کی ہے، جو اس سنگین واقعے کی تعریف کر رہے ہیں۔

'ہم چیئرمین بلاول بھٹو اور ایم این اے آصفہ بھٹو سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایم این اے پیر امیر علی شاہ کے خلاف کارروائی کریں، جنہوں نے میرپورخاص میں ملزم پولیس افسران کو پھولوں کے ہار پہنائے۔‘

علی پلھ نے یورپی یونین، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی اور ترقی یافتہ ممالک کے سفارت خانوں سے اپیل کی کہ جعلی مقابلوں میں ملوث اور انسانیت کا احترام نہ کرنے والے پولیس افسران کو سکالرشپ یا تعلیمی مواقع یا ویزے نہ دیے جائیں۔

سول سوسائٹی نے سندھ بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا اور بار ایسوسی ایشنز سے اس تحریک میں شامل ہونے کی اپیل کی۔

توہین مذہب کا الزام اور مبینہ پولیس مقابلہ

پیر 16 ستمبر کو عمرکوٹ کے ہسپتال کے ڈاکٹر شاہ نواز کے نام سے فیس بک پروفائل سے مبینہ توہین مذہب کے مواد پوسٹ ہونے کے بعد مشتعل افراد نے شہر میں پرتشدد احتجاج کرتے ہوئے پولیس موبائل کو جلا دیا تھا۔

18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ڈاکٹر شاہ نواز کی میرپور خاص کے سندھڑی تھانے کی حدود میں مبینہ پولیس مقابلے میں موت کی خبر سامنے آئی۔

ان کی لاش کو جب عمرکوٹ کے قریب ان کے گاؤں جاہنرو لایا گیا تو مقامی لوگوں نے دفنانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد کئی شہروں میں لاش لے جائے گی، مگر مشتعل افراد نے دفنانے کی اجازت نہیں دی۔

جس کے بعد لاش کو جلانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل دیکھی گئیں۔

ڈاکٹر شاہ نواز کی لاش کو جلائے جانے کی خبروں کی تصدیق کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے اسسٹنٹ سپرینٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) عمرکوٹ آصف رضا سے کئی بار رابطہ کیا مگر انہوں نے لاش جلانے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

مبینہ مقابلہ، ڈی آئی جی میرپور خاص سمیت 10 اہلکار معطل

وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن النجار نے اس واقعے پر جمعے کو ڈی آئی جی میرپورخاص، ایس ایس پی میرپور خاص اور ایس ایچ او سندھڑی کو معطل کردیا۔

آئی جی سندھ نے آج ایک نوٹیفیکشن جاری کرتے ہوئے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) میر پور خاص کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کا تبادلہ کر دیا اور انہیں سینٹرل پولیس آفس کراچی میں رپورٹ کرنے کو کہا ہے۔

ان کی جگہ میرپورخاص کا اضافی چارج اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی ) تھرپارکر شبیر احمد سیٹھار کے حوالے کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ میرپور خاص ضلع کے مختلف پولیس افسران اور اہلکاروں کو بھی معطل کر دیا گیا۔

گذشتہ روز معطل ہونے والے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) میر پور خاص کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کی جگہ میرپورخاص ضلع کا اضافی چارج لینے والے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) تھرپارکر شبیر احمد سیٹھار کی دستخط سے افسران اور اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق سندھڑی تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) انسپکٹر نیاز محمد کھوسو، سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) میرپورخاص کے پولیس سب انسپیکٹرآف پولیس (ایس آئی پی) ہدایت اللہ کو معطل کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ معطل کیے جانے والے اہلکاروں میں سندھڑی تھانے کے ہیڈ کانسٹیبل لکھمیر، کانسٹیبل اللہ جُڑیو، کانسٹیبل محمد صدیق، سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) میرپورخاص کے کانسٹیبل نادر پرویز، کانسٹیبل غلام قادر اور فرمان علی بھی شامل ہیں۔

نوٹیفکیشن کے تحت معطل پولیس افسران اور اہلکاروں کو پولیس لائن میرپورخاص میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ ن

وٹیفکیشن میں ہدایت کی گئی کہ مجاز اتھارٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر متعلقہ افسران اور اہلکار ہیڈ کوارٹر نہیں چھوڑ سکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان