لڑکوں سے ریپ کی ویڈیوز وائرل، والدین کو کارروائی کے لیے راضی کیا: مظفرگڑھ پولیس

حالیہ دنوں میں مظفر گڑھ کے علاقوں شاہ جمال اور خان گڑھ سے تعلق رکھنے والے متعدد نوعمر لڑکوں سے ریپ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس کے بعد دو متاثرہ لڑکوں کے والدین کی جانب سے پولیس کو درخواست دی گئی۔

29 جولائی 2015 کی اس تصویر میں جنوبی پنجاب کے شہر مظفرگڑھ میں ایک پولیس موبائل دیکھی جا سکتی ہے (اے ایف پی)

جنوبی پنجاب کے شہر مظفرگڑھ میں پولیس کے مطابق شاہ جمال اور خان سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوانوں سے ریپ کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد والدین کو ملوث افراد کے خلاف کارروائی پر رضامند کرکے واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

حالیہ دنوں میں مظفر گڑھ کے علاقوں شاہ جمال اور خان گڑھ سے تعلق رکھنے والے متعدد نوعمر لڑکوں سے ریپ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس کے بعد دو متاثرہ لڑکوں کے والدین کی جانب سے پولیس کو درخواست دی گئی۔

درخواست میں بتایا گیا کہ ایک گروہ نے ان کے بچوں کو سکول جاتے ہوئے اغوا کیا اور ڈیرے پر لے جا کر ریپ کا نشانہ بنایا اور ویڈیوز بھی بنائیں جو واقعے کے سات ماہ بعد منظر عام پر آنے سے والدین کو علم ہوا۔

پولیس کے مطابق بااثر ملزمان کی طرف سے نوعمر لڑکوں سے ریپ کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس افیسر(ڈی پی او) مظفر گڑھ حسنین حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’رواں ہفتے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 10 سے 15 سال کی عمر کے لڑکوں سے ریپ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئیں، پولیس نے ان ویڈیوز کی نشاندہی ہونے پر متاثرہ بچوں کے والدین کو تلاش کیا اور انہیں رضامند کیا کہ وہ کارروائی کے لیے درخواست دیں، تاہم وہ بدنامی اور ملزمان کے خوف سے سامنے نہیں آنا چاہتے تھے، لیکن ان میں سے دو بچوں کے والدین نے درخواست دی، جس کے بعد شاہ جمال اور خان گڑھ کے تھانوں میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔‘

حسنین حیدر کے بقول: ’ابھی تک کی معلومات کے مطابق یہ کوئی منظم گینگ دکھائی نہیں دیتا، تاہم پولیس ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ ایک دو دن میں گرفتاری کے بعد تفتیش کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ کتنے لوگ ہیں اور منظم گروہ کے طور پر کام کر رہے ہیں یا انہوں نے اپنے طور پر ایسی حرکتیں کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی پی او حسنین حیدر کے بقول: ’ان علاقوں میں جنسی ہراسانی اور ریپ کے واقعات قدرے زیادہ رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مختاراں مائی سمیت کئی ایسے واقعات گذشتہ کئی سالوں سے سامنے آتے رہے ہیں۔ اب ریپ کی ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے جس پرپولیس کارروائی کر رہی ہے۔‘

تھانہ شاہ جمال میں متاثرہ بچے کے والد کی جانب سے درج کی گئی ایک ایف آئی آر میں انہوں نے موقف اختیار کیا: ’میں کھیتی باڑی کا کام کرتا ہوں۔ میرا 15 سالہ بیٹا گورنمنٹ ہائی سکول میں پڑھتا ہے۔ محمد حماد اور مطیع اللہ نے تین نامعلوم افراد کے ساتھ مل کر ان کے بیٹے کو سکول جاتے ہوئے اغوا کیا اور ڈیرے پر لے گئے۔ وہاں انہوں نے برہنہ کر کے اس سے جنسی ریپ کی اور ویڈیو بھی بنائی۔

’یہ واقعہ سات ماہ پہلے پیش آیا لیکن بیٹے نے شرم کے مارے گھر نہیں بتایا۔ اس کے بعد ملزمان نے ان کے بیٹے کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا اور دوبارہ بلایا، جب اس نے بات نہیں مانی تو سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل کر دیں، لہذا ملزمان کو حراست میں لے کر سخت قانونی کارروائی کی جائے۔‘

مدعی کے مطابق ان کے بیٹے نے بتایا کہ ملزمان کئی لڑکوں کو اغوا کر کے ریپ کر چکے ہیں اور ان کی ویڈیوز بھی بنائی گئی ہیں۔

مظفر گڑھ پولیس کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ویڈیوز میں بچوں کو برہنہ کرکے مقامی اوباشوں کا گروپ ویڈیوز بناتا ہے۔ ان ویڈیوز کو ڈیرہ غازی خان سمیت مختلف علاقوں میں بد فعلی کے خواہش مند لوگوں کو دکھایا جاتا ہے اور جو لڑکا انہیں پسند ہو اس کے پیسے لے کر اسے بلیک میل کرتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ چلے ورنہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی جائیں گی۔ ان دو لڑکوں نے ان کی بات نہیں مانی تو انہوں نے ان کی ویڈیوز وائرل کر دیں۔‘

پولیس ویڈیوز وائرل کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق بھی چھان بین کر رہی ہے اور روایتی طریقوں سے بھی ملزمان کی گرفتاری کے لیے حکمت عملی بنائی گئی ہے۔

کچھ عرصہ قبل پنجاب کے شہر قصور میں بھی بچوں سے ریپ کا سکینڈل منظر عام پر آیا تھا، جس کے بعد پولیس نے ملزمان کو گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ درجنوں بچے جنسی ریپ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔

اس معاملے پر پولیس نے ایک بڑا آپریشن کرکے کئی ملزمان کو گرفتار کیا تھا، جو جیل میں قید ہیں اور کئی عدالتوں سے سزا پا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بچوں سے ریپ کے کئی واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان