جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اتوار کو ممکنہ آئینی ترمیم کے حوالے سے کہا ہے کہ ’اس جعلی قسم کی پارلیمان سے اتنی بڑی آئینی ترمیم کرنا ناانصافی ہے۔‘
پشاور میں جمعیت علمائے اسلام کے جماعتی انتخابات کے بعد نیوز کانفرنس سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’جب آپ آئینی ترمیم لاتے ہیں، قانون سازی کرتے ہیں، اس میں آپ بنیادی حقوق کو بھی ڈبو لیتے ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان بھی بات ہوئی ہے، وہ بھی ایک مسودہ بنا رہے ہیں اور ہم بھی، اور ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گے۔
’پی ٹی آئی بھی ایک مسودہ بنا رہی ہے اور ہم بھی بنا رہے ہیں، اور وہ ساتھ شیئر کریں گے۔
’اس طریقے سے ہم چاہیں گے کہ ایک اتفاق رائے سے ترمیم لائی جائے تاکہ یہ ملک میں کسی سیاسی ہنگامے کا ذریعہ نہ بنے بلکہ اصلاحات کا ذریعہ بنے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ’حکومتی مسودہ شیئر ہوا تھا جسے دیکھ کر اسے مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے حالات کے حوالے سے کہا کہ ’ہمارا صوبہ اس وقت آگ میں جل رہا ہے۔
’شمالی وزیرستان کے لوگ میرے پاس آئے، کرم ایجنسی کے لوگ آئے، اب بھی وہاں پر جنگ شروع ہے، لوگ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور ریاست خاموش ہے۔‘
مولانا نے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے ’انقلاب‘ لانے کے بیان کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ’میں اس بیان کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اس کا جواب دوں۔
’میں ایسے لوگوں یا بیانات پر بات کرنا اپنی توہین سمجھتا ہوں میرے نزدیک ایسے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
’ایسے بیانات دینے کی کیا ضرورت ہے کہ آپ ریاست اور صوبوں کے اندر جنگ کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘
جمعیت علمائے کے پارٹی انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کو بلامقابلہ اگلے پانچ سال کے لیے امیر اور غفور حیدری کو سیکریٹری جنرل منتخب کر لیا گیا ہے۔