پنجاب پولیس کے ترجمان نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ صوبائی پولیس نے وزیر اعلی مریم نواز شریف کے ویژن ’محفوظ پنجاب‘ کے مطابق رواں برس دو لاکھ سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں قید ملزمان کو رکھا کہاں پر جائے گا؟
اندپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس وقت صوبے کی 43 جیلوں میں 37 ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن یہاں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے 60 فیصد زیادہ ہے۔‘
ادھر پنجاب پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ گرفتار ہونے والے دو لاکھ ’ان ملزمان میں ایک لاکھ سے زائد ملزمان مختلف وارداتوں میں ملوث اشتہاری ملزمان تھے۔‘
ڈی پی آر سے جاری ترجمان پولیس کے بیان کے مطابق: ’ملزمان کی گرفتاری کے لیے مسلسل جاری آپریشنز کے دوران 25 ہزار سے زائد ٹارگٹ آفینڈرز (عادی مجرم) بھی گرفتار کیے گئے جن میں اے کیٹیگری کے 10 ہزار 822 ، بی کیٹیگری کے 14 ہزار 358 عادی مجرم) شامل ہیں۔‘
پولیس نے بتایا کہ ’گرفتار ملزمان میں اے کیٹیگری کے 16 ہزار 700، بی کیٹیگری کے 84 ہزار 807 اشتہاری شامل ہیں جبکہ تقریباَ 53 ہزار عدالتی مفرور بھی گرفتار کیے گئے، جن میں اے کیٹیگری کے 4395 اور بی کیٹیگری کے 48 ہزار 578 عدالتی مفروران شامل ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق ’ملزمان کی گرفتاری کے لیے مسلسل جاری آپریشنز کے دوران 25 ہزار سے زائد ٹارگٹ آفینڈرز (عادی مجرم) بھی گرفتار کیے گئے۔
’اس کے علاوہ سنگین جرائم میں مطلوب 70 سے زائد اشتہاریوں کو بیرون ممالک سے گرفتار کرکے پاکستان منتقل کیا گیا۔‘
جیل خانہ جات حکام کے مطابق ’پنجاب بھر میں اس وقت 43 جیلیں ہیں۔‘
پنجاب جیل خانہ جات کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق: ’ان جیلوں میں دو ہائی سکیورٹی جیلز، نو سینٹرل جیلز، 27 ڈسٹرکٹ جیلز، دو جویلنائل جیلز، دو سب جیلز اور ایک خواتین کی جیل شامل ہے۔‘
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل آپریشنز پنجاب شہزادہ سلطان سے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا: ’ہم جب انہیں پکڑتے ہیں تو انہیں جیلوں میں بھیجا جاتا ہے۔ جیلوں کی گنجائش اتنی نہیں ہوتی کہ وہاں لاکھوں ملزمان کو رکھا جائے اس لیے ان کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں اور یہ لوگ جیلوں سے باہر آ جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب کوئی ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو پولیس کو 14 روز کے اندر اس کا چالان عدالت میں جمع کروانا ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’زیادہ تر کیسسز میں جو بھی ثبوت موجود ہوں ان کی روشنی میں چالان دیے گئے وقت کے اندر جمع ہو جاتے ہیں لیکن اگر ثبوت نہ ہو تو عدالتیں مزید تین دن کا وقت دے دیتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فرض کریں کہ تین لوگوں نے جرم کیا اور وہ تینوں بھاگ گئے۔ تینوں کے نام ایف آئی آر میں معلوم ہو گئے، پولیس نے اپنی کاروائی شروع کی اس میں ایک ملزم پکڑا گیا۔
’مگر باقی نہیں اس لیے جب ایک ملزم پکڑا جائے گا تو چالان جمع ہو جائے گا جب اس کا دوسرا اور تیسرا ساتھی پکڑا جائے گا تو ان کا ضمنی چالان جمع ہو گا۔‘
ان کے مطابق: ’اگر ملزمان لمبے عرصے تک نہیں پکڑے جاتے تو انہیں اشتہاری قرار دے دیا جاتا ہے جب اشتہاری پکڑے جاتے ہیں تو پولیس انہیں عدالت کے سپرد کرتی ہے اور عدالت انہیں جیل بھیجتی ہے کیونکہ پولیس 24 گھنٹے سے زیادہ ملزم کو بغیر عدالت لے جائے اپنی حراست میں نہیں رکھ سکتے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’عدالتوں میں ان کے وکیل درخواست دیتے ہیں اور ان کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں یہ جیل سے باہر آجاتے ہیں اور پھر کیس عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں۔‘