اٹلی، برطانیہ اور ایران سے سائیکلوں پر پاکستان آنے والے تین سیاحوں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں صادق آباد سے رحیم یار خان کے سفر کے دوران پولیس نے ’ہراساں‘ کیا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین غیر ملکی سیاحوں نے پولیس کا حفاظتی دستہ ساتھ رکھنے سے انکار کیا اور گروپ میں شامل ایک ایرانی خاتون کی موجودگی کے باعث انہیں پولیس ایسکورٹ کے بغیر نہیں جانے دیا جا سکتا تھا۔
سبراہ پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کسی نے ان سیاحوں پر حملہ یا تشدد نہیں کیا اور نہ ہی ہراساں کیا۔ یہ لوگ حفاظتی دستہ ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے جو کہ سکیورٹی پروٹوکولز کے خلاف ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان کے ساتھ ایران سے تعلق رکھنے والی ایک سیاح بھی ہیں اور ایران میں پاکستانیوں کے قتل کے واقعے کے تناظر میں ہم انہیں حفاظتی دستے کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔‘
دوسری جانب اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایلکس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایک سال قبل اٹلی سے روانہ ہوئے تھے اور ایران میں ان کی ملاقات مطاہرہ نامی ایرانی خاتون سے ہوئی جس کے بعد دونوں نے پاکستان کا سفر شروع کیا۔
کراچی پہنچنے پر ایلکس اور مطاہرہ کی ملاقات برطانوی سیاح چارلی سے ہوئی اور تینوں نے گروپ کی شکل میں آگے کا سفر شروع کیا۔
ایلکس کے مطابق: ’27 جنوری کو ہم نے سائیکلوں پر صادق آباد سے نیشنل ہائی وے فائیو کے ذریعے لاہور کا سفر شروع کیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ محفوظ شاہراہ ہے۔
’راستے میں ہم سڑک کنارے ایک ہوٹل پر ناشتے کے لیے رکے۔ پولیس کا حفاظتی دستہ ہمارے ہمراہ تھا اور وہ ہم سے تقریباً 10 میٹر دور بیٹھے تھے۔‘
ایلکس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ناشتہ کرتے ہوئے انہیں 20 منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک پولیس وین اور اس میں سے تین پولیس اہلکار، جنہیں انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا، اترے اور ان کی طرف بہت ٖجارحانہ اندازمیں آئے۔
’انہوں نے آتے ہی ہماری ایرانی خاتون ساتھی مطاہرہ پر چلانا شروع کر دیا اور انہیں کہا کہ وہ وہاں سے اٹھیں۔‘
ایلکس کے مطابق ’مطاہرہ نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں اٹھیں اور وہ ایسے پولیس والوں کو جواب نہیں دیں گی جو ان سے اس طرح غصے سے بات کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اپنے کیمرے سے ویڈیو بنانا شروع کر دی، جس کی وجہ سے ایک پولیس اہلکار نے ان سے کیمرا چھیننے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ان کے ویڈیو کیمرے کا ٹرائی پوڈ ٹوٹ گیا۔
’اور پھر انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑ کر پورے زور سے زمین پر گرا دیا۔‘
ایلکس نے بتایا کہ ’تقریباً ایک منٹ بعد پولیس ان کا کیمرا لے کر اپنی گاڑی کی طرف چلے گئے۔
’میں پولیس وین کی طرف بھاگا اور میں نے اپنا کیمرہ واپس مانگا۔ پولیس افسر ڈنڈے کے ساتھ میرے پیچھے بھاگا۔ میرے پاس اس کا ویڈیو ثبوت بھی موجود ہے۔ میں بھاگ گیا اور پولیس اہلکار واپس وین میں بیٹھ گیا۔‘
ایلکس نے دعویٰ کیا کہ ایرانی سیاح مطاہرہ ان کا کیمرہ واپس لینے کی غرض سے پولیس وین کے سامنے کھڑی ہو گئیں، جس پر ’پولیس افسر نے اپنے ڈرائیور سے گاڑی مطاہرہ کے اوپر سے گزارنے کا کہا اور ڈرائیور نے حکم کے مطابق وین چلا بھی دی لیکن مطاہرہ عین وقت پر گاڑی کے سامنے سے ہٹ گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر میں گاڑی کے پیچھے بھاگا اور پچھلے حصے پر چڑھ گیا اور پولیس والوں نے میری موجودگی کا جاننے کے باوجود وین ہائی وے پر دوڑانا شروع کر دی۔
’مجھے میرا کیمرا واپس چاہیے تھا۔ اسی میں ہم پر حملے کا ثبوت تھا۔‘
ایلکس نے مزید دعویٰ کیا کہ وہ ایک کلومیٹر کے فاصلے تک وین کے پیچھے لٹکے رہے اور پھر ہائی وے پر گر گئے، جس سے انہیں چوٹیں بھی لگیں۔
ایلکس نے کہا کہ پولیس والے ان کا کیمرہ لے کر چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق وہ واپس ڈھابے پر آئے اور انہوں نے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں سے دریافت کیا کہ وین میں آنے والے اہلکار کون تھے۔
’میں نے ویڈیو بنانا شروع کی، لیکن پولیس والوں نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے تاکہ وہ پہچانے نہ جائیں اور انہوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔‘
اطالوی سیاح کہتے ہیں کہ اس کے آدھے گھنٹے کے بعد مزید پولیس وہاں آ گئی اور پھر وہ گاڑی بھی واپس آ گئی جس میں ہم پر حملہ کرنے والے تین پولیس اہلکار موجود تھے۔
’جس پولیس اہلکار نے مجھ پر حملہ کیا تھا میرا کیمرا اور ٹوٹا ہوا ٹرائی پوڈ واپس کر دیا۔‘
غیر ملکی سیاح نے کہا کہ اس وقت ان کی ایرانی ساتھی موبائل فون کے ذریعے ویڈیو بناتے ہوئے اس پولیس وین کے پاس گئیں، جس میں ہم پر حملہ کرنے والے پولیس اہلکار بیٹھے تھے، اور ان سے کہا کہ ’تمھیں شرم آنی چاہیے،‘ جس پر ’پولیس اہلکار نے اپنی پستول مطاہرہ پر تان لی‘۔