معروف مذہبی سکالر اور ادیان کے تقابلی جائزے کے ماہر ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان کے سرکاری دورے پر پہنچ گئے ہیں اور یہاں پر مختلف شہروں میں اجتماعات اور پروگراموں میں شرکت کریں گے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں پانچ اکتوبر سے 20 اکتوبر تک مختلف دنوں میں اجتماعات سے خطاب بھی کریں گے جس کی تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور ان اجتماعات سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیٹے شیخ فارق نائیک بھی خطاب کریں گے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اس سے پہلے بھی پاکستان آچکے ہیں لیکن پاکستان کا 1991 کا دورہ ان کی زندگی میں ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔
اپنی زندگی کی کہانی پر مبنی ویڈیو سیریز (ZAKIR NAIK BIOGRAPHY : MY LIFE AND MY STORY - from a Stammerer to an Islamic Orator & Hijrah) میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بتایا کہ 1991 میں وہ پاکستان آئے تو لاہور میں مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے ملے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق ’ڈاکٹر اسرار احمد دنیا کے اردو بولنے والے مذہبی داعیوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہیں۔‘
ڈاکٹر ذاکر نائیک بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد سے میں نے پوچھا کہ میرا ایم بی بی ایس مکمل ہو گیا ہے اور اب میں پریکٹس کروں گا اور ساتھ ساتھ دعوت کا کام بھی کروں گا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق ڈاکٹر اسرار احمد نے مجھے بتایا، ’آپ کو میڈیکل اور داعی بننے میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ دونوں ایک ساتھ آپ نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر اسرار خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھے۔‘
’انڈیا واپسی پر میں نے سوچنا شروع کیا اور والد سے مشورہ لیا کہ میں دو گھنٹے دعوت اور باقی وقت میڈیکل پریکٹس کا سوچ رہا ہوں جس پر والد نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے والد سے ماہانہ پانچ ہزار انڈین روپے اور ایک چھوٹا سا کمرہ لینے کی درخواست کی اور یوں اسی کمرے میں انہوں نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔
اس کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک نے والد سے کہا کہ اب میں 50 فیصد میڈیکل اور باقی گھنٹے دعوت کو دوں گا، اور اس پر بھی والد نے اعتراض نہیں کیا، کچھ عرصے بعد انہوں نے والد کو بتایا کہ اب میں مکمل وقت دعوت کو دوں گا اور والد خوشی سے مان گئے۔
یوں ڈاکٹر اسرار احمد کے مشورے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے میڈیکل لائن چھوڑ کر دعوت کے کام پر توجہ دی اور اس کے بعد انڈیا سمیت مختلف ممالک میں مذہبی لیکچرز دیتے رہے۔
زبان کی لکنت اور غربت
ڈاکٹر ذاکر نائیک انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا کے شہر ممبئی میں 1965 میں پیدا ہوئے تھے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی ہکلاہٹ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب وہ سکول میں تھے تو وہاں پر ان کے نصاب میں پبلک سپیکنگ کا ایک مضمون تھا۔ اس مضمون میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق ’اساتذہ مجھ پر ترس کھا کر گریڈ دیتے اور مجھے پاس کرتے رہے کیونکہ میری زبان میں لکنت تھی اور میں درست طریقے سے نہیں بول سکتا تھا۔‘
’تاہم بعد میں یہی پبلک سپیکنگ میرا تجربہ بن گئی اور عجیب بات یہ ہوتی کہ جب میں غیر مسلموں کے مجمع میں لیکچر دیتا تھا تو روانی سے بات کرتا تھا، لیکن گھر میں آکر بولتا تھا تو وہی ہکلانے کا مسئلہ درپیش آتا تھا۔‘
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ہائی سکول ممبئی کے سینٹ پیٹر ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کالج مکمل کیا اور جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں میڈیکل میں داخلہ لیا۔
دو سال پڑھنے کے بعد نیشنل ٹوپی والا میڈیکل کالج مائیگریشن کیا اور وہاں سے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی اور انٹرن شپ شروع کی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ابتدائی معاشی حالات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کے والد اتنے غریب تھے کہ ان کی میڈیکل فیس بھرنے کے لیے دودھ اور اخبار مختلف گھروں میں تقسیم کرتے تھے۔
’مجھے اس پر فخر ہے کہ میں ایک گوالے کا بیٹا ہوں جنہوں نے اپنی محنت سے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ خود بھی میرے والد اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ انڈیا کی سائیکاٹرک ایسوسی ایشن کے پہلے مسلمان صدر بن گئے تھے۔‘
زبان میں لکنت تھی لیکن بڑے ہوکر روانی سے ایسے بولتے ہیں کہ کسی کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کو ہکلانے کا مسئلہ بچپن میں درپیش تھا۔
انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی پر مبنی ویڈیو سیریز میں بتایا ہے کہ ان کے والد ڈاکٹر عبدالکریم نائیک انڈیا کے مشہور ماہر نفسیات تھے، 1987 میں جنوبی افریقا کے مشہور مذہبی سکالر شیخ احمد دیدات ممبئی کے دورے پر آئے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے والد ان سے ملے اور بعد میں ڈاکٹر ذاکر کو بھی ملوایا، یوں پہلی ملاقات میں ہی ذاکر ان سے متاثر ہو گئے۔
اس کے بعد احمد دیدات کو دوبارہ انڈیا کے دورے کی درخواست کی گئی اور 1988 میں دوبارہ شیخ احمد دیدات ممبئی آئے، 10 دن انہی کے یہاں قیام کیا، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے والد نے ہی ان کے لیے اجتماعات کا انعقاد کیا اور اس دوران ڈاکٹر ذاکر ان کی تعلیمات سے متاثر ہونا شروع ہوئے۔
اس کے بعد شیخ دیدات کے مختلف لیکچرز ڈاکٹر ذاکر نائیک سنتے رہے اور ان کی کیسٹس اپنی لائبریری میں جمع کرتے رہے۔
کچھ عرصے بعد ڈاکٹر ذاکر جنوبی افریقہ گئے، جہاں پر جوانی میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر ایک مسجد میں مجمع سے خطاب کیا اور لیکچر دیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق احمد دیدات بھی نے ان کی زندگی بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انڈیا چھوڑ کر ملائیشیا میں آباد ہونا
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنی فاؤنڈیشن بنانے سے 2007 تک خوب محنت کی اور مختلف فورمز اور مختلف ممالک میں مذہبی سکالر اور محقق کے حیثیت سے اجتماعات سے خطاب کیا۔
دنیا بھر میں مشہور مذہبی تقاریب اور مناظروں میں شرکت کی، تاہم 2007 کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک کو کچھ سیاسی مسائل کا سامنا کرنا شروع ہوگیا۔
انہوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ 2010 میں میری ایک ویڈیو پر تنقید کی گئی اور انڈیا میں بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے میری تقاریر پر اعتراضات اٹھانا شروع کیے۔
اس سے پہلے 2008 میں بنگلہ دیش میں ایک دھماکہ ہوا تھا، اور انڈیا کے کچھ اخبارات نے خبر دی تھی کہ حملہ آوروں میں سے ایک ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھا۔
تاہم ڈاکٹر نائیک کے مطابق بنگلہ دیش کے کچھ اخبارات نے اس خبر کی تصحیح کی تھی، لیکن انڈیا کے اخبارات نے نہیں کی کہ وہ فین تو ہو سکتا ہے لیکن متاثر ہونے کا عنصر اس میں نہیں تھا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اس کے بعد انڈیا میں ایک ’متنازع‘ مذہبی شخصیت کے طور پر جانے گئے، اور انڈیا میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے مقدمات بھی درج ہوئے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق دنیا کے تقریباً 20 ممالک نے انہیں رہائش پذیر ہونے کی درخواست کی لیکن ملائیشیا کی خوبصورتی اور یہاں اسلام کی پرورش کی وجہ سے انہوں نے ملائیشیا کا انتخاب کیا اور 2016 میں یہاں شفٹ ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد انڈیا کی حکومت نے انٹرپول کے ذریعے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی گرفتاری کی بھی درخواست کی، لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق انٹرپول نے انڈیا کی درخواست بغیر ثبوت کے کئی بار مسترد کیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق برطانیہ میں 2010 میں ٹیریسا مے کی حکومت میں انہیں وہاں کے مسلمانوں کو لیکچرز دینے کا بتایا گیا، لیکن برطانوی حکومت نے انہیں اپنے ملک سے نکال دیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان کے دورے سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟
پشاور یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حافظ محمد انعام اللہ نے کہا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاکستان کے دورے سے یہاں کے عوام کو بہت فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت بحرانوں کا شکار ہے اور شاید ان کی تقاریر سے لوگوں میں صبر اور برداشت کا مادہ پیدا ہو اور انہیں معلوم ہو کہ دین پر عمل کرنے سے دنیاوی معاملات بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کی جانب سے ان پر تنقید کی جا رہی ہے، لیکن ڈاکٹر انعام کا کہنا ہے کہ تنقید کوئی بری چیز نہیں اگر وہ اخلاقی دائرے میں ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک مذاہب کے تقابلی جائزے کے ماہر ہیں اور ان پر تنقید سے انہیں اور تنقید کرنے والوں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔