’صدیق کپن نے مجھ سے کہا کہ میں تین دہائیوں سے صحافت کر رہا ہوں۔ بے گناہ ہوں اور پولی گراف ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کے لیے تیار ہوں۔ ان کی باڈی لینگویج، آواز اور چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر میرا بھی پختہ یقین ہے کہ وہ بالکل بے قصور ہیں۔ میں اپنے آپ کو تسلی نہیں دے رہا ہوں بلکہ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سب کہہ رہا ہوں۔‘
یہ بات بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع ملاپورم سے تعلق رکھنے والے 44 سالہ مسلمان صحافی صدیق کپن کے وکیل ولز میتھیوز نے انڈپینڈنٹ کو بتائی۔
ملیالم زبان کی نیوز ویب سائٹ ’اژیموگم ڈاٹ کام‘ سے وابستہ صدیق کپن کو شمالی ریاست اترپردیش کی پولیس نے پانچ اکتوبر 2020 کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ مذکورہ ریاست کے قصبہ ہاتھرس میں ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے مبینہ گینگ ریپ و قتل اور جبری آخری رسومات کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔
ابتدا میں ریاست اترپردیش، جہاں حکومت کی باگ ڈور سخت گیر ہندو نظریاتی موقف رکھنے والے بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھ میں ہے، کی پولیس نے صحافی صدیق کپن پر ذات پات پر مبنی فساد برپا کرنے اور فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کے ارادے کے ساتھ ریاست میں داخل ہونے کا الزام لگایا۔
تاہم کچھ دنوں کے بعد اترپردیش کی پولیس نے ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت بغاوت، سازش اور دہشت گردی جیسے سنگین الزامات لگائے۔
چار ماہ بعد بھارتی تحقیقاتی ادارے ’انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ نے صدیق کپن پر منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا اور اپنی سطح پر تحقیقات شروع کیں۔
اترپردیش کی پولیس کا دعویٰ ہے کہ صدیق کپن بھارتی مسلمانوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا یا پی ایف آئی کے آفس سیکریٹری ہیں۔
پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جس گاڑی سے صدیق سمیت چار لوگ سفر کر رہے تھے اس کے اندر پی ایف آئی سے متعلق تحریریں اور دستاویزات برآمد ہوئی ہیں۔ پی ایف آئی نے ان سبھی دعووں کو مسترد کیا ہے۔
کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس، جس کے نئی دہلی یونٹ کے صدیق کپن سیکریٹری ہیں، نے اترپردیش پولیس کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اپنے ساتھی کی رہائی کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
صدیق کپن اور ان کے ساتھ گرفتار ہونے والے تین افراد عتیق الرحمان، مسعود احمد اور عالم فی الوقت اترپردیش کی متھورہ جیل میں مقید ہیں۔ سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ صدیق کو اپنی 90 سالہ علیل ماں خدیجہ کو دیکھنے کے لیے پانچ دن کی مشروط ضمانت پر رہا کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافی صدیق کپن اترپردیش پولیس کی موجودگی میں ضلع ملاپورم میں اپنی ماں سے ملے جس کے بعد انہیں واپس متھورہ لایا گیا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ میڈیا سے کوئی بات نہیں کریں گے۔
ایڈووکیٹ ولز میتھیوز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی جانب سے صحافی صدیق کپن کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر عرضی پر اگلی سماعت نو مارچ کو مقرر ہے۔
’میرا موکل بے گناہ ہے۔ اس پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ انہیں جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے۔ میرے موکل کو کوئی آئیڈیا نہیں ہے کہ انہیں اس طرح کیوں پھنسایا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ سچائی کی جیت ہو گی۔‘
ولز میتھیوز نے بتایا کہ انہوں نے صدیق کپن کے ساتھ ملاقات کی ہے اور ان کے موکل کو گرفتاری کے دن مارا پیٹا گیا تھا۔
’گرفتاری کے دن انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہیں مارا پیٹا گیا تھا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں اس کے بعد میرے موکل کو جسمانی اذیت نہیں دی گئی ہے۔‘
صدیق کپن کی اہلیہ ریحانہ صدیق نے قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ ان کے شوہر سے یہ سوالات پوچھے گئے ہیں کہ کیا وہ بڑا گوشت یا بیف کھاتے ہیں اور کتنی بار اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملے ہیں۔
ولز میتھیوز نے اس پر کہا: ’میں نے بھی سنا ہے کہ صدیق کپن سے بڑے گوشت اور ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متعلق سوالات پوچھے گئے ہیں۔ چونکہ یہ سوالات میرے لیے اہمیت نہیں رکھتے ہیں اس لیے میں نے ان کے بارے میں اپنے موکل سے نہیں پوچھا۔ تحقیقاتی افسران کسی بھی طرح کے سوالات پوچھ سکتے ہیں۔
’میں صرف حراستی تشدد، جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، کے بارے میں متفکر ہوں۔ میں صرف ان چیزوں پر فوکس کرنا چاہتا ہوں جو کیس جیتنے میں میرے کام آئیں۔‘
’پریس کی آزادی پر حملہ‘
کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے نئی دہلی یونٹ کے سابق سیکریٹری منی کنڈن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ صدیق کپن کی ’بلاجواز گرفتاری پریس کی آزادی پر حملہ ہے۔ صدیق بھائی کی گرفتاری پریس کی آزادی پر حملہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت پریس کی آزادی کو کچلنا چاہتی ہے۔ ہم ان کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ کے اندر اور باہر لڑ رہے ہیں۔
’ہمارے ساتھی نے پولیس کو گرفتاری کے وقت ہی بتایا تھا کہ میں ایک صحافی ہوں اور رپورٹنگ کے لیے ہاتھرس جا رہا ہوں۔ پولیس نے ان کی ایک نہیں سنی اور انہیں گرفتار کر کے لے گئی۔‘
منی کنڈن نے بتایا کہ اترپردیش کی پولیس جھوٹ بول رہی ہے کہ گرفتاری کے وقت صدیق کپن کے پاس کوئی پریس کارڈ نہیں تھا۔
’اترپردیش کی پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔ وہ اژیموگم سے پہلے تلسمیم نامی اخبار کے ساتھ وابستہ تھے۔ وہ اخبار مالی بحران کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔
’ان کے پاس تلسمیم، پریس کونسل آف انڈیا، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور کیرالہ یونین آف جرنلسٹس کے شناختی کارڈ تھے۔ اپنے آپ کو صحافی ثابت کرنے کے لیے اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے؟‘
منی کنڈن نے بتایا کہ کیرالہ میں صحافی اور سماجی و سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد صحافی صدیق کپن کی رہائی کے لیے لڑ رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے ریاست کیرالہ کے سبھی 14 اضلاع میں یونٹز ہیں۔ اس کے علاوہ نئی دہلی اور تمل ناڈو سمیت تین ریاستوں میں بھی اس کے یونٹز ہیں۔ ان یونٹز سے وابستہ سبھی صحافی اپنے ساتھی کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔'
’اپنے صحافی شوہر پر فخر ہے‘
صحافی صدیق کپن کے تین بچے ہیں اور ان کی اہلیہ ریحانہ صدیق اپنے شوہر کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر سرگرم ہو گئی ہیں۔ ریحانہ کیرالہ میں صدیق کپن کی رہائی کے لیے منعقد ہونے والے احتجاجی پروگرامز میں شرکت بھی کرنے لگی ہیں۔
ریحانہ نے 'الجزیرہ' کو بتایا ہے کہ ان کے شوہر کو مسلمان ہونے اور ملیالی شناخت کی وجہ سے ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ 'ان سے پوچھا گیا تھا کہ مسلمان کیونکر دلتوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔'
بتایا جا رہا ہے کہ صدیق کپن 9 سال پہلے کیرالہ سے نئی دہلی منتقل ہوئے تھے اور وہیں سے ملیالم زبان کے اخبارات و نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے تھے۔
بھارت میں کیرالہ 96 اعشاریہ 2 فیصد خواندگی کے ساتھ ملک کی خواندہ ترین ریاست ہے۔ بھارت کے دوسرے حصوں کے برعکس وہاں کے مسلمان ملیالم زبان کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی خواندگی شرح و اقتصادی حالت کافی بہتر ہے۔
ریحانہ صدیق نے حال ہی میں ایک تقریب میں بولتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے صحافی شوہر صدیق کپن پر فخر ہے۔
'آپ سب سے ملتمس ہوں کہ میرا ساتھ دیں۔ میرے بچے اور دیگر اہل خانہ سخت تکلیف سے گزر رہے ہیں خاص کر میرے شوہر کی بستر مرگ پر پڑی والدہ سخت ترین کرب و درد سے دوچار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کے شوہر نے کچھ جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور وہ ایک دہشت گرد ہیں لیکن مجھے اُن پر پورا اعتماد ہے۔ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہوگا۔ وہ ایک صحافی ہیں وہ ایسے جرم کر ہی نہیں سکتے جن کا ان پر الزام لگایا جا رہا ہے۔ مجھے اُن پر فخر ہے۔‘
ریحانہ صدیق نے کہا کہ میں نے کبھی عوام میں نکل کر بات نہیں کی ہے لیکن آج مجھے مجبور ہو کر ایسا کرنا پڑتا ہے کیونکہ میرے پاس اب کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔
’آج مجھے ان لوگوں کا درد و کرب محسوس ہو رہا ہے جو مقید ہیں پہلے مجھے ان کا کوئی احساس نہیں ہو رہا تھا جس پر مجھے تاسف ہے۔ میرے شوہر کی طرح متعدد بے قصور لوگ بند ہیں۔ آج مجھے ان کے اہل خانہ کا درد محسوس ہو رہا ہے۔ میں آپ سب سے ملتمس ہوں کہ میرے شوہر کی رہائی تک میرا ساتھ دیں۔‘