موٹروے پولیس کے مطابق منگل کو لاہور اسلام آباد موٹر وے (ایم ٹو) پر لاہور کے قریب فیض پور انٹر چینج پر اسلام آباد سے آنے والی ایک بس نے مانسہرہ سے لاہور جانے والی ہائی ایس ویگن کو پیچھے سے ٹکر ما ری، جس کے نتیجے میں پانچ افراد جان سے چلے گئے۔
موٹر وے پولیس کے ترجمان سید عمران احمد نے بتایا کہ اس حادثے میں ویگن بری طرح تباہ ہوگئی، جس کے نتیجے میں تین مسافر موقعے پر جبکہ دو ہسپتال جا کر دم توڑ گئے اور چھ افراد زخمی ہوئے، جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جان سے جانے والے مسافروں کی شناخت کی جا رہی ہے، تاکہ انہیں ان کے ورثا تک پہنچایا جا سکے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ کہا جا رہا ہے کہ بس ڈرائیور کو نیند آگئی تھی، جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ویسے تو ڈرائیوروں کو لمبے سفر کے دوران نیند آجانے کے حادثات معمول ہیں، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موٹر وے پر ریسٹ ایریاز بھی موجود ہیں اور موٹر وے پولیس بھی ڈیوٹی کر رہی ہے تو ڈرائیور کو نیند آنے کے واقعات پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکا؟
اس حوالے سے ترجمان موٹر وے پولیس سید عمران احمد نے اںدپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موٹر وے پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں ڈرائیور کی نیند کے باعث ہونے والے واقعات ویسے تو کم ہیں، لیکن جب اس وجہ سے کوئی حادثہ ہوتا ہے تو کافی سنجیدہ ہوتا ہے جس میں قیمتی جانیں زیادہ ضائع ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ویسے تو موٹر وے پولیس اس بارے میں کافی الرٹ رہتی ہے۔ بسوں کی چیکنگ بھی کی جاتی ہے کہ کوئی ڈرائیور سست دکھائی نہ دے رہا ہو، تاہم کمپنیوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ ہر بس میں لمبے روٹ پر دو ڈرائیور لازمی رکھیں۔ اگر ایک کو نیند آجائے تو دوسرا گاڑی چلائے۔ بد قسمتی سے حادثے کا شکار بس میں ایک ہی ڈرائیور تھا اور دوسرا کنڈیکٹر تھا۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہر ٹرانسپورٹ کمپنی کو آگاہی اور ہدایات دی جاتی ہیں کہ وہ ڈرائیوروں سے ایک مخصوص وقت تک ڈیوٹی لیں، لیکن اکثر ٹرانسپورٹرز ڈرائیوروں کی قلت کا بہانہ بنا کر 12 سے 15 گھنٹے مسلسل ڈیوٹی کرواتے ہیں۔ مسافروں کو جلدی ہونے کے باعث ڈرائیور کو نیند بھی آئی ہو تو وہ ریسٹ ایریا میں آرام نہیں کر سکتا اور چائے وغیرہ پی کر گزارہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’حادثے کی صورت میں قانونی کارروائی تو ہوتی ہے لیکن اس میں بس ڈرائیور کی غلفت کے باعث حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہم بسوں یا گاڑیوں کی معمول سے ہٹ کر سپیڈ یا ڈرائیونگ سے اندازہ لگا کر بسوں کو روک کر کارروائی بھی کرتے ہیں۔‘
ترجمان موٹر وے نے مزید کہا کہ ’ڈرائیوروں کو سستی کی صورت میں گاڑی کھڑی کر کے آرام کرنے کی بھی آگاہی دی جاتی ہے۔‘
دوسری جانب لاہور کے ٹرانسپورٹر علی نیازی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہم موٹر وے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور اس وقت تک کسی ڈرائیور کو موٹر وے کا روٹ نہیں دیتے جب تک مقامی روٹس پر اسے ڈرائیونگ کی مکمل مہارت حاصل نہ ہو جائے۔ جہاں تک ڈرائیوروں کو نیند آنے کا سوال ہے تو نیند تو کہیں بھی کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ ہر ڈرائیور اپنی قوت کے مطابق ہی ڈیوٹی کرتا ہے ایک وقت میں ایک ہی لمبے روٹ پر بس لے جاتا ہے اور پھر واپسی کے دوران چند گھنٹے آرام کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس دوران کوئی ڈرائیور نیند پوری نہ کر سکے تو اس میں کمپنی تو کچھ نہیں کر سکتی۔‘
علی نیازی نے مزید کہا: ’اگر فاصلہ زیادہ لمبا ہو تو کسی بھی شہر سے بس کا ڈرائیور تبدیل کیا جاتا ہے۔ کئی بار دو ڈرائیور بھی بس میں موجود ہوتے ہیں کہ اگر ایک تھک جائے تو دوسرا گاڑی چلا لیتا ہے، لیکن نیند آنے کی وحد وجہ یہ نہیں ہوتی کہ نیند پوری نہیں ہوئی یا ڈرائیور کئی گھنٹے سے گاڑی چلا رہا ہے۔ کئی بار کہیں کھانا کھانے کے بعد غنودگی میں بھی ڈرائیور کی آنکھ لگ سکتی ہے۔ یہ واقعات صرف پبلک ٹرانسپورٹ نہیں بلکہ ذاتی گاڑیوں میں بھی پیش آتے رہتے ہیں۔‘