وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کو پاکستان تحریک انصاف کے حالیہ احتجاج کا موازنہ 2014 کے دھرنے سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دوبارہ ایسی کسی سازش کو دہرانے نہیں دیں گے۔
اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج اور ملک میں عسکریت پسندی کے واقعات خصوصاً چینی انجینئرز پر حملوں کا ذکر کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ رواں برس بشام میں چینی انجینیئرز پر حملے کے واقعے کے بعد کراچی میں ایئرپورٹ پر انتہائی افسوسناک واقعہ ہوا، جس میں دو چینی شہریوں کی اموات اور ایک زخمی ہوا جب کہ حملے میں کچھ پاکستانی بھی زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’بشام واقعے کے بعد چینی حکومت کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے مضبوط اقدامات ہونے چاہیے اور جب میں جون میں چین گیا تو انہیں یقین دہانی کروائی لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے کل یہ واقعہ ہوا۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ چین کے سفیر سے ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ’اس واقعے پر ہمیں شرمندگی ہے، لیکن ہمارا حوصلہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور ہم سکیورٹی کو مزید بہتر کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ رواں ماہ 15 اور 16 اکتوبر کو ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس ای او) کانفرنس کے لیے پوری طرح انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس سربراہی اجلاس میں انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سمیت دیگر ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود شریک ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اسلام آباد کے ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج کو 2014 کے دھرنے کی تکرار (Replica) قرار دیتے ہوئے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ کے دورے کو ملتوی کرنے کے لیے دھرنا دیا گیا اور سی پیک کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
’یہ پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانے کی کوشش تھی۔ پاکستان کی جڑوں کو کاٹنے کے لیے سازش کی گئی۔‘
2014 میں اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے وقت نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب چینی صدر نے سی پیک منصوبوں کے معاہدے کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔
شہباز شریف نے اس وقت کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ’میں نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ میں (اس وقت کے آرمی چیف) جنرل راحیل شریف سے ملاقات کرتا ہوں، چینی سفیر نے ہمیں آگاہ کیا تھا کہ ہم نے چینی صدر کا ملتوی کر دیا ہے، لیکن میں نے کہا کہ آپ رکیں۔ میں چینی سفیر کو بھی جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے لیے لے گیا۔ یہ تین ستمبر 2014 کی بات ہے۔
’راحیل شریف (دھرنے کی قیادت سے مذاکرات کے لیے) گئے لیکن 15 منٹ بعد انہوں نے آکر کہا کہ بات نہیں بنی۔‘
اور بقول شہباز شریف، چینی وزیراعظم کا دورہ سات ماہ کی تاخیر سے 2015 میں ہوا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا: ’اسلام آباد پر چڑھائی ہو رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ مذموم عزائم ہیں، ناپاک ارادے ہیں۔
’ایک جتھا ہے، جسے منظور نہیں کہ پاکستان کی حالت بہتر ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول وزیراعظم: ’جہاں دھرنے ہوں وہاں کون سرمایہ کاری کرے گا، کون رسک لے گا؟ سرمایہ کاری وہیں ہوتی ہے، جہان سکون اور امن ہو اور سب کو پتہ ہو کہ ان کا سرمایہ یہاں محفوظ ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ ’خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی سربراہی میں جو کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اٹک میں ان کے جلوس میں بغیر کسی شک و شبہ کے افغان شہری موجود تھے، سرکاری پولیس کے لوگ تھے، جہاں سے ہوائی فائرنگ ہوئی۔‘
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور چار اکتوبر کو پشاور سے ایک قافلے کی صورت میں اسلام آباد آئے تھے، جہاں ان کے ساتھ موجود لوگوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں، جس کے بعد وہ خیبرپختونخوا ہاؤس چلے گئے، جہاں سے ان کی گرفتاری کی اطلاعات سامنے آئیں تاہم حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔ اس دوران دو تین دن تک وفاقی دارالحکومت کے مختلف راستے کنٹینروں کی مدد سے بند رکھے گئے اور موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بھی بند رہی تھیں۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں، آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہم ملک کو معاشی خودمختاری کی طرف لے جا رہے، جسے منظم سازش کے ذریعے سبوتاژ کیا جا رہا ہے، اس سے بڑی ملک دشمنی کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
انہوں نے کہا: ’یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کس طرح سعودی عرب اور چین نے ماضی میں ہماری بھرپور مدد کی۔۔۔ ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم یہاں تشریف لائے، انہوں نے مثبت گفتگو کی، اب سعودی عرب کا دورہ ہونے جا رہا ہے، پھر چین کے وزیراعظم آئیں گے، ایس سی او کی مہمان نوازی کا موقع ہمیں مل رہا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اس موقعے پر چین کے انجینیئرز کو ٹارگٹ کرنا، جسے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرلیا ہے۔۔۔ وفاق پر دن رات چڑھائی کی جا رہی ہے، انتہائی افسوس ناک گفتگو کی جا رہی ہے، اس طرح کے وقعات، 15-2014 میں جو کچھ کیا گیا، اس کا ریپلکا ہے کہ کس طرح ڈی چوک پر کئی ماہ دھرنا دیا گیا اور چینی صدر کے دورے کی تاریخ کا اعلان ہوگیا لیکن پی ٹی آئی کے بانی قطعاً اس بات کو خاطر میں نہیں لائے کہ دورے کے ملتوی ہونے سے کتنا نقصان پہنچے گا۔‘