امریکہ کا عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی دباؤ نہیں: خواجہ آصف

وزیر دفاع نے عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دباؤ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے ریاست کے ساتھ تعلقات سوشل میڈیا پوسٹوں کی بنیاد پر نہیں چلتے۔

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیر کو کہا ہے کہ امریکہ کا عمران خان کی رہائی کے حوالے سے پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں۔

انہوں نے اسلام آباد میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں نہیں سمجھتا امریکہ کا عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی دباؤ ہے۔ ریاست کے ریاست کے ساتھ تعلقات ان باتوں اور سوشل میڈیا پوسٹس سے بالاتر ہوتے ہیں۔‘

نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے متوقع خصوصی نمائندے برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل نے 26 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کے دوران عمران خان کی حمایت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ لگائی تھی، جس میں انہوں نے عمران خان کو ’ڈونلڈ ٹرمپ جیسا رہنما‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف الزامات کو بے بنیاد گردانا تھا۔

خواجہ آصف نے گرینیل کی ایکس پوسٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’مختلف شخصیات کی مختلف آرا ہوتی ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ ان (رچرڈ گرینیل) کی ایسی ایکس پوسٹ کسی بھی طرح سے بامعنی ہو سکتی ہے۔‘

پاکستان افغانستان مذاکرات 

افغانستان سے مذاکرات کے حوالے سے خواجہ آصف نے بتایا کہ ’پس پردہ بات چیت چل رہی ہے اور باہمی ملاقاتیں بھی جلد متوقع ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی کوئی وفاقی اکائی اپنے طور پر ہمسایہ ملک سے مذاکرات نہیں کر سکتی۔ اب سفارتی معاملات بھی صوبائی حکومت خود ڈیل کرے گی اگر کوئی صوبہ ایسا کرتا ہے تو یہ بغاوت کا اعلان ہو گا۔‘

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ’ان (پی ٹی آئی) کا اسلام آباد پر حملہ بھی بغاوت کی تعریف میں آتا ہے۔

’دہشت گردی سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ میں ہے۔ اس سے وہ مقابلہ کر نہیں پا رہے اور وفاقی حکومت پر افغانستان کے ساتھ تعلقات نہ نبھانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس لیے صوبہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لے۔ ایسا کہنا علیحدگی کی تحریک کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ کی طرف سے یہ کہنا کہ افغانستان کی فوج بڑی ہے اور ہمارے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے مناسب نہیں۔

’میں خود طالبان کا معترف ہوں کہ انہوں نے ایک بڑی لمبی جنگ لڑی اور بہادری سے لڑی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے سپر پاور کو شکست دی، لیکن اس صورت حال کو پاکستانی افواج کے ساتھ مقابلہ کرنا صوبے کے وزیر اعلی میں بغاوت کی سوچ ظاہر کرتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ملک کی جغرافیائی صورت حال کی وجہ سے ہماری ضرورت ہے کہ مضبوط فوج نیوکلیئر ہتھیاروں کے ساتھ تیار رہے۔

’لیکن جب ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ اس قسم کی باتیں کرے، فوج کی قابلیت پر سوال اٹھائے اور خارجی معاملات میں مداخلت کرے تو یہ ان کی طرف سے علیحدگی کی تحریک کی طرف لے جانے کی کوشش ہے جو ناکام ہو گی۔‘

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اتوار کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت ماضی میں ان کی افغان حکومت سے مذاکرات کی تجویز پر اب عمل کرنے جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر وفاقی حکومت کابل سے مذاکرات نہیں کر پا رہی تو انہیں اجازت دی جائے ان کا صوبہ ایسا کر سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات

پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات پر خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہمیں ابھی تک پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے رابطہ نہیں کیا کیونکہ ان کی اپنی صفوں میں اتفاق نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سب کے الگ الگ بیانات ہیں جن کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت کو مذاکرات کے لیے باضابطہ پیشکش ہو گی تو ہم جواب دیں گے۔‘

عمران خان کی امریکہ کو حوالگی   

عمران خان کی رہائی میں امریکہ کے دباؤ پر پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ میں انڈپینڈنٹ اردو سے غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات کیا ہوں گی اور وہ کس حد تک دوسرے ممالک میں مداخلت کریں گے۔

’ایک قیدی یہاں پر موجود ہے جس نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ امریکہ نے بارہا شکیل آفریدی کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن امریکہ کی کوششوں کے باوجود شکیل آفریدی ہماری تحویل میں ہے۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے نکتہ اٹھایا کہ ’جب شکیل آفریدی کو دباؤ کے باوجود امریکہ کے حوالے نہیں کیا تو کسی اور قیدی کو دباؤ پر کیسے دے سکتے ہیں؟

’اگر وہ امریکہ سے یا ان کی کانگریس سے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں تو ایسا نہیں ہو گا۔‘

مدارس بل

مدارس بل سے متعلق سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’مدارس بل کا معاملہ اب حل ہونے کے قریب ہے۔ مولانا (فضل الرحمان) سے ان کے تخفظات پر بھی بات ہو رہی ہے، مشترکہ سیشن میں مشترکہ نکات کے ساتھ بل لائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست