بشار الاسد کے زیر اقتدار زندگی سے نالاں، 16 سالہ معاویہ سیاسنیہ اور ان کے دوستوں نے اپنے سکول کے کھیل کے میدان کی دیوار پر رنگ کی مدد سے چار الفاظ لکھ دیے۔
یہ چار باغیانہ الفاظ تھے جن کی وجہ سے ان نوجوانوں کو ہفتوں تک قید اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اور 2011 کے اوائل میں شام کے پہلے مظاہروں کا آغاز ہوا۔
یہ وہ چار الفاظ تھے جنہوں نے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جو جدید دور کی سب سے خونی خانہ جنگیوں میں سے ایک میں تبدیل ہو گئی۔
یہ چار الفاظ تھے: ’اب تمہاری باری ہے، ڈاکٹر۔‘
یہ بشار الاسد کی طرف اشارہ تھا، جو لندن میں ایک ماہر چشم تھے۔ بعد ازاں انہوں نے شام واپس آ کر اپنے خاندان کے ظالمانہ اقتدار کو جاری رکھا۔
درعا شہر میں اسی دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے یاد کیا کہ ’ہم نے ان الفاظ کی وجہ سے 45 دن جیل میں اذیت برداشت کی۔ یہ ناقابل بیان تھا۔ ہم بچے تھے۔ ہمیں لٹکایا گیا، مارا پیٹا گیا، اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔‘
معاویہ کے کاندھے پر رائفل لٹک رہی تھی۔ وہ بالآخر آزاد شامی فوج کے ساتھ مل کر لڑنے لگے اور کئی سال بعد اس گروپ کا حصہ بنے جس نے نہ صرف گذشتہ ہفتے درعا سے حکومتی افواج کو نکالا بلکہ دارالحکومت دمشق پر قبضہ کرنے والے پہلے باغی بھی بنے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ 2011 میں جب انقلاب شروع ہوا تو پورے علاقے نے اپنے بچوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ہمیں اپنے عمل پر فخر ہے کیوں کہ ’جو کام بالغ نہیں کر سکے، وہ ہم نے کیا۔‘
اب 30 سال کے اور بچوں کے والد، نوجوان معاویہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے ایک سادہ اور جذباتی عمل کا اتنا بڑا اثر ہو گا۔ وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے بعد، درعا پر اسد انتظامیہ کی شدید بمباری کے نتیجے میں فرار ہونے اور پناہ گزین بننے کے بعد، وہ واپس آئیں گے اور جنوبی آپریشنز روم کے باغیوں کے ساتھ دمشق پہنچ کر اسد کے زوال کی نوید بنیں گے۔
وہ اپنی تصویر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ درعا کی جنگ اچانک شروع ہوئی۔ ہمیں حیرت ہوئی ۔ چند لمحوں میں ہم نے شہر فتح کر لیا اور پھر دمشق، جہاں میں زندگی میں پہلی بار گیا تھا۔ تصویر میں وہ دارالحکومت کے شہدا چوک میں رائفل تھامے حیرت زدہ نظر آ رہے ہیں۔
معاویہ کا کہنا ہے کہ ’جب ہم نے برسوں پہلے وہ الفاظ لکھے تو ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ سب کچھ ہو گا۔ سچ کہوں تو ہمیں نہیں لگتا تھا کہ یہ پورے شام اور درعا کو اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیں گے۔ لیکن ہم نے اپنی آزادی کا مطالبہ کیا، اور آج ہم اپنی سرزمین پر موجود ہیں۔
’جنگ سخت تھی۔ کئی لوگ زخمی ہوئے۔ بہت سے لوگ مارے گئے۔ ہم نے بے شمار عزیز کھو دیے لیکن پھر بھی ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ شہدا کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ انصاف غالب آیا اور انقلاب فتح یاب ہوا۔‘
یہ چنگاری جس نے سب کچھ بھڑکا دیا، اس چھوٹے سے جنوبی شہر میں بھڑکی جس کے بارے میں 2011 سے پہلے بہت کم لوگ جانتے تھے۔ اردن کی سرحد سے چند میل کے فاصلے پر واقع درعا کی جنگ سے پہلے کی آبادی صرف ایک لاکھ 17 ہزار تھی۔ بغاوت سے پہلے بھی زندگی مشکل تھی۔
معاویہ تمام تر ذمہ داری 2000 کی دہائی کے اوائل میں آنے والے نئے سکیورٹی سربراہ عاطف نجیب پر ڈالتے ہیں۔ وہ اپنے جابرانہ قواعد کی وجہ سے بدنام تھے اور خود معاویہ اور اس کے دوستوں کی قید کے نگران تھے۔
معاویہ یاد کرتے ہیں کہ ’2011 کے اوائل تک سڑکیں پولیس کی چوکیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ آپ اندر داخل یا باہر نہیں جا سکتے تھے۔ ہم مصر اور تیونس میں مظاہرے دیکھ رہے تھے جہاں حکومتیں بکھر رہی تھیں۔ تو ہم نے لکھا: ’اب تمہاری باری ہے، ڈاکٹر۔‘ اور پولیس چوکی کو جلا دیا۔‘
مختلف خاندانوں کے کم از کم 15 لڑکوں کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک لڑکا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔
معاویہ یاد کرتے ہیں کہ حکام نے ان کے والدین سے کہا کہ ’اپنے بچوں کو بھول جاؤ۔ نئے بچے پیدا کرو۔ اور اگر تمہیں بھول گیا ہے کہ یہ کیسے کرتے ہیں تو اپنی بیویوں کو لے آؤ۔‘
مارچ تک ہزاروں اورپھر لاکھوں لوگ شہر کی غیرجانبدار العمری مسجد کے ارد گرد باقاعدگی سے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ انہوں نے بچوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرے ملک بھر کے مایوس شہریوں کے لیے احتجاج کا نقطہ آغاز ثابت ہوئے۔
’جو کچھ ہوا اس پر ہمیں حیرت ہوئی۔ سب نے بچوں کی واپسی کا مطالبہ کیا – درعا کے اندر موجود خاندانوں نے لیکن ساتھ ہی پورے شام میں بھی۔‘
ایہاب قطیفن، جو اب 50 سال کے ہیں اور اس وقت مظاہرین میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ بچوں کی گرفتاری وہ آخری چنگاری تھی جس نے بغاوت کو جنم دیا۔
وہ 13 سال بعد اسی مسجد کے باہر کھڑے ہو کر یاد کرتے ہیں ’ہم بہت بری حالت میں تھے، جیسا کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جیلیں، قید خانے، اور تشدد کے آلات۔ ہم پر حکومت کے ہر ایک ادارے نے ظلم کیا۔‘
مظاہروں کا سامنا حکام نے تشدد سے کیا، اور وہاں سے لڑائی بڑھتی گئی۔ سات سال تک شدید جنگ ہوتی رہی جس کے دوران حکومت کی افواج نے درعا کو تباہ کر دیا۔ مرنے والوں میں معاویہ کے والد بھی شامل تھے، جو 2014 میں جمعے کی نماز کے لیے جاتے ہوئے حکومت کے بم حملے میں مارے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2018 تک باغی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور معاہدے کے تحت انہیں شمال مغربی صوبے ادلب منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ ان لوگوں میں معاویہ بھی شامل تھے جو وہاں سے ترکی فرار ہو گئے جہاں انہوں نے پناہ گزین کی زندگی کی مشکلات برداشت کیں۔
مایوس اور شکستہ، بالآخر وہ سمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والے راستوں کے ذریعے اپنے آبائی شہر واپس آ گئے اور اس مہینے کے آغاز میں جب ادلب سے اپوزیشن فورسز نے حلب، حما، اور حمص کی طرف پیش قدمی کی تو درعا کے ان مایوس نوجوانوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے ایک بار پھر اسد حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سرکاری فوجی، جن سے وہ دہائیوں سے خوفزدہ رہے، غائب ہو گئے۔
درعا میں برسوں کی جنگ نے شہر کے بڑے حصے کو برباد کر دیا ہے۔ بچے اب اپارٹمنٹس کے ٹوٹے ہوئے ڈھانچوں کے سائے میں فٹ بال کھیلتے ہیں۔ خاندانوں نے اپنے سابقہ گھروں کے کھنڈرات میں عارضی گھر دوبارہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
آج کے نوجوانوں نے جنگ کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔
ایک 16 سالہ لڑکے کے بقول: ’میرا گھر تباہ ہو گیا۔ میرے والد کو زبردستی غائب کر دیا گیا، میرے بھائی کو مار دیا گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس سے پہلے کچھ اور دیکھا ہو سوائے لڑائی کے۔‘
اپنے دوستوں کو اس سکول کے قریب فٹ بال کھیلتے دیکھتے ہوئے، جہاں معاویہ نے دیوار پر وہ تحریر لکھی جس نے یہ سب شروع کیا۔ وہ افسردگی سے کہتا ہے کہ ’میری پہلی یاد حکومت کے فوجیوں کو لوگوں پر گولی چلاتے ہوئے دیکھنا ہے۔‘
لیکن معاویہ جن کا بیٹا اب چھ سال کا ہے، پرامید ہیں۔ اپنے لیے نہیں بلکہ نوجوان نسل کے لیے۔
وہ اپنی رائفل تھامے کہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ شام پہلے سے بہتر ہو۔ لیکن صاف بات یہ ہے کہ میرا مستقبل ختم ہو چکا ہے۔ اگلی نسل کا مستقبل اہم ہے۔
’میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں کہ انہیں وہ اذیت نہ دیکھنی پڑے جو ہم نے دیکھی۔ کہ انہیں ہتھیار نہ اٹھانے پڑیں۔ کہ وہ ہماری طرح جنگوں میں نہ زندگی بسر نہ کریں اور انہیں وہ تحفظ اور سکون ملے جو ہم سب کا حق ہے۔‘
© The Independent