ایس سی او اجلاس سے پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچے گا

اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہر سال منعقد ہوتا ہے لیکن دو عالمی طاقتوں چین اور روس کے وزرائے اعظم سمیت سات ممالک کے سربراہان مملکت اور باقی ممالک کے بھی اعلیٰ سطح کے وفود کا آنا یقینی طور پر اچھی اور مثبت خبر ہے جس کے معاشی اثرات ضرور ہوں گے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں 15 اور 16 اکتوبر کو منعقد ہو گا جس کے لیے اسلام آباد میں انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں (اے یف پی)

شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس آج سے شروع ہو چکا ہے جس میں 11 ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود بشمول چھ وزرائے اعظم شرکت کر رہے ہیں۔ ویسے تو یہ اجلاس پہلے سے طے تھا مگر پاکستان کے سیاسی حالات اور دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے رکن ممالک اس اجلاس کو ملتوی بھی کر سکتے تھے جس سے یقیناً دنیا میں پاکستان کے حالات کے بارے مین کوئی اچھا پیغام نہ جاتا۔

لیکن یہاں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو داد دینی پڑے گی جنہوں نے کامیاب ڈپلومیسی سے ایس سی او کے ارکان کو باور کروایا کہ حالات اور معاملات حکومت اور ریاست کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔

اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہر سال منعقد ہوتا ہے لیکن دو عالمی طاقتوں چین اور روس کے وزرائے اعظم سمیت سات ممالک کے سربراہان مملکت اور باقی ممالک کے بھی اعلیٰ سطح کے وفود کا آنا یقینی طور پر اچھی اور مثبت خبر ہے جس کے معاشی اثرات ضرور ہوں گے۔

اس سے پہلے سعودی عرب کا اعلیٰ سطح کا وفد وزیر سرمایہ کاری کی سربراہی میں پاکستان آیا اور دو ارب ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ایم او یوز پر دستخط ہوئے۔

یہ تمام چیزیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب پاکستان کی ایک مقبول سیاسی جماعت سڑکوں پر ہے، عدلیہ آئینی ترمیم اور دیگر معاملات کی وجہ سے منقسم نظر آ رہی ہے۔ ان اقدامات کو اگر بہتر نہ کہا جائے تو یہ زیادتی ہو گی۔

اب اگر ایس سی او کی بات کی جائے تو چین سے سی پیک 2 کی چھتری کے نیچے نئے ایم او یوز سائن ہوں گے، گوادر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا افتتاح ہو چکا ہے، اور ایس سی او کے رکن ممالک کا زیادہ تر فوکس معاشی امور، تجارت اور کنیکٹیویٹی پر ہی رہے گا جس سے یقیناً پاکستان جیسی معیشت جو ابھی تھوڑا بہت سھنبلنا شروع ہوئی ہے فائدہ ہی ہوگا۔

لیکن ہمیں جو ذہن نشین رکھنا ہو گا وہ یہ کہ جو افغانستان، ایران اور انڈیا کے ساتھ ہمارے بارڈرز پر ٹریڈ نہ ہونے کے برابر ہے ایسے میں پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس کے ساتھ کنکٹیویٹی کا ہمارا خواب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا۔

اب تک ہماری جو پالیسیاں رہی ہیں اس سے ہم خطے میں دنیا کو صرف الگ تھلگ ہی رکھ پائے ہیں اور خود کو الگ رکھ کر ہم خطے یا دنیا سے کنیکٹ نہیں ہو پائیں گے۔ لیکن اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو باقاعدہ اتفاق سے ایک سٹریٹیجی بنانی پڑے گی کہ اس معاملے پر آگے کیسے بڑھنا ہے۔

خصوصاً انڈیا اور افغانستان سے ہمارے تعلقات کو ہمیشہ سکیورٹی کے پیرائے میں ہی دیکھا گیا ہے لیکن کیا اب وقت آچکا ہے کہ ہم ان ممالک خصوصاً افغانستان کے راستے وسطی ایشیا سے کنیکٹ ہوں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر بھی ایس سی او سمٹ میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں، یہ آپٹکس کی حد تک بڑی خبر ضرور ہے لیکن دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں کوئی پیش رفت ناممکن ہے کیونکہ دونوں واضح کر چکے ہیں کہ باہمی تعلاقات پر کوئی بات نہیں ہو گی۔

بہرحال ایس سی او سمٹ جن حالات میں منعقد ہو رہا ہے صرف اس کا منعقد ہونے سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے ایک انتہائی مثبت پیغام جائے گا۔

ایک اور ٹاپک جس پر بات کرنا ضروری ہے وہ ہے گذشتہ ہفتے ریگی پشاور میں ہونے والا کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ کا ایک ’کامیاب جرگہ‘ جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

بدقسمتی سے جرگہ کا آغاز تو پی ٹی ایم کے کارکنان پر براہ راست فائرنگ اور اس کے نتیجے میں اموات سے ہوا لیکن پھر حکومت ریاست اور سیاسی جماعتوں کی عقل آخرکار ٹھکانے آئی اور وزیراعلیٰ پختونخوا کی قیادت میں ایک جرگہ ہوا جس نے پشتون تحفظ مومنٹ سے مذاکرات کر کے جرگہ کا پرامن انعقاد ممکن بنایا جس کے لیے حکومت کے تمام سٹیک ہولڈرز اور پی ٹی ایم کی تمام قیادت مبارک باد کی مستحق ہے۔

اب جرگے کا اعلامیہ آ چکا ہے اور اگر یہ آگ بھڑکانے کی بجائے بجھانی ہے تو حکومت اور ریاست دونوں کو آئین کی حدود میں پی ٹی ایم کے تمام جائز مطالبات تسلیم کرنے ہوں گے۔ پشتونوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کا مداوا کرنا اب لازم ہو چکا ہے ورنہ حالات جو کہ سات آٹھ اضلاع میں بے قابو ہیں پھر خدانخواستہ پورے صوبے کو کنٹرول سے باہر کر سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر