بے ہوشی کی جدید ادویات کی ایجاد سے قبل مریض کو یا تو مضبوطی سے باندھا جاتا تھا یا کئی لوگ آپریشن تھیئٹر میں اسے مضبوطی سے پکڑتے تھے اور اس کے بعد چیخ و پکار کے دوران ہی مریض کا آپریشن کیا جاتا تھا۔
اس دوران کئی مریض درد، انفیکشن، شاک یا زیادہ خون بہنے کی وجہ سے مر جاتے تھے جبکہ سرجن بھی مریضوں کی چیخ و پکار برداشت نہیں کرپاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ سرجری کے شعبے میں آتے ہی نہیں تھے۔
ایسا بھی ہوا کہ 15ویں صدی میں امریکی سرجن اور حجام نے مل کر ’یونائیٹڈ باربر اینڈ سرجن کمپنی‘ بنائی، جو دانت نکالنے کے علاوہ دیگر آپریشنز بھی کرتے تھے، یعنی حجام سرجری کیا کرتے تھے۔
یہ یاد رہے کہ ہمارے ہاں بھی گاؤں دیہات میں ایسا ہی ہوتا تھا اور حجام دانت نکالنے، بچوں کے ختنے کرنے یا پھوڑے وغیرہ کی جراحی بھی کیا کرتے تھے۔
یہ اینستھیزیا یا مریض کو آپریشن سے پہلے بے ہوش کرنے کی دوا کی ایجاد سے پہلے کا زمانہ تھا، جب بغیر بےہوشی کے مریض کا آپریشن کیا جاتا تھا، جس سے ڈاکٹرز بھی کتراتے تھے اور اس پیشے کو ’پرتشدد‘ پیشہ سمجھا جاتا تھا۔
آج یعنی 16 اکتوبر کو دنیا بھر میں اینستھیزیا یا آپریشن سے پہلے بے ہوشی دینے کے پروسیجر کا دن منایا جاتا ہے، جس میں اینستھیزیا کے ماہرین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف تحقیقی مقالوں کا مطالعہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اینستھیزیا سے پہلے آپریشن کیسے کیا جاتا تھا اور اینستھیزیا کیسے ایجاد ہوا۔
انسانی تاریخ کی پہلی سرجری
’دی نیچر‘ نامی جریدے میں شائع تحقیقی مقالے کے مطابق انڈونیشیا میں ایک 15/16 سالہ لڑکے کی قبر دریافت ہوئی اور اس میں ملنے والے انسانی ڈھانچے سے پتہ چلا کہ اس کی ایک ٹانگ سرجری کے دوران کاٹی گئی تھی۔
سائنس دان تحقیق کر کے اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ 31 ہزار سال پہلے انسانی تاریخ کی پہلی سرجری تھی، جس میں اس لڑکے کی ٹانگ کاٹی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی ڈھانچے پر مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ اس آپریشن کے بعد لڑکا چھ یا سات سال تک زندہ رہا اور اس کے بعد فوت ہوا۔
اسی تحقیقی مقالے کے مطابق اس سے پہلے عام خیال تھا کہ تین ہزار سال قبل مسیح میں انسانی سر میں شدید سر درد کا علاج کرنے یا ’بد روحوں‘ کو جسم سے نکالنے کے لیے سوراخ کیا جاتا تھا، تاہم اس حوالے سے مستند معلومات موجود نہیں ہیں۔
اس عمل کے بعد کہا جاتا ہے کہ بعض مریض زندہ بچ جاتے تھے اور یہ طریقہ افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ تک پھیل گیا تھا۔
’ہارورڈ سٹیج‘ نامی جریدے کے مطابق یونان کے سنہرے دور میں بھی کچھ سرجریاں شروع کی گئیں، جن میں ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنا شامل تھا جبکہ رومن دور میں آنکھ کی سرجری، ٹانگ یا بازو کاٹنا اور سر میں سوراخ کرنے جیسے آپریشن ہوتے رہے۔
اسی جریدے کے مطابق اسلامی اور مغربی میڈیکل پریکٹس کو مزید تقویت تب ملی جب 900 قبل مسیح میں اسلامی سرجن ابو قاسم الزہراوی نے آرتھوپیڈک، ملٹری سرجری، ناک، کان اور گلے کی سرجری پر کتاب لکھی۔
اس کے بعد 18ویں صدی تک جریدے کے مطابق ’باربر سرجن‘ یا حجام سرجن مختلف علاقوں میں جا کر دانت نکالنے، خون نکالنے (جسے آج کل حجامہ کہتے ہیں) اور جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے۔
تاہم یہ آپریشن کرنے والے پیشہ ور طبیب نہیں ہوتے تھے بلکہ جس طرح لوہار سیکھتے ہیں، اسی طرح یہ سرجن مشاہدے اور پریکٹس کے بعد سرجریاں بغیر کسی بےہوشی کے کرتے تھے، جو خطرناک بھی ہوتا تھا اور اس میں مریض کے مرنے کے امکانات زیادہ ہوتے تھے۔
اسی وجہ سے مقالے کے مطابق خون بہنے سے روکنے کے لیے سرجن جتنا جلدی ہو سکتا تھا، آپریشن کیا کرتے تھے۔ لندن کے ڈاکٹر رابرٹ لسٹن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے زیادہ جلدی میں مریض کی ٹانگ کاٹتے ہوئے اسسٹنٹ کی انگلی بھی کاٹ دی تھی۔ اس کے بعد مریض اور اسسٹنٹ دونوں مر گئے تھے اور لندن میں یہ مشہور ہوگیا کہ اس ڈاکٹر نے ایک سرجری سے دو بندوں کو مار دیا اور اس کیس میں شرحِ اموات دو سو فیصد رہی۔
اب آتے ہیں اینستھیزیا کی طرف، جس کی ایجاد کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے اور جس نے طب کے میدان میں درد سے بھرے آپریشنوں کو آرام دہ بنایا۔
امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق بےہوشی میں استعمال ہونے والی دوا ہزاروں سال سے موجود تھی، لیکن اس کی طرف دھیان نہیں دیا گیا تھا۔
اسی جریدے کے مطابق ہپوکریٹس یا بقراط، جنہیں جدید طب کا بانی بھی کہا جاتا ہے، نے پہلی مرتبہ ’اینستھیزیا‘ کا لفظ استعمال کیا اور انہوں نے یہ تھیوری پیش کی کہ بے ہوشی کے دوران انسان بے حس ہوجاتا ہے اور اسے درد محسوس نہیں ہوتا۔
بقراط 300 قبل مسیح میں ایک یونانی طبیب تھے اور انہوں نے ہی افیون اور ہیپناٹک اجزا کو بطور درد کش دوا استعمال کرنے کا طریقہ ایجاد کیا تھا۔
اس کے بعد مختلف مراحل طے ہوئے اور سرجریوں کے دوران افیون، شراب کے گھونٹ سمیت مختلف نشہ آور ادویات مریض کو سنگھانے کے ذریعے دی جاتی تھیں یا مریض کی ناک میں رکھی جاتی تھیں۔
تاہم باقاعدہ اینستھیزیا کے ایجاد سے پہلے مغرب سمیت مذہبی رجحانات بھی موجود تھے اور مغربی دنیا میں یہ عقیدہ تھا کہ بغیر بے ہوشی کے مریض آپریشن کے دوران درد سے زندہ رہتا ہے۔
اسی طرح اس وقت بھی مذہبی رجحانات موجود تھے اور امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے جریدے کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زخم کے بعد آپریشن اور درد خدا نے تقدیر میں لکھے ہیں اور خدا کے فیصلوں میں تبدیلی گناہ سمجھا جاتا تھا۔
ایتھر، جو بطور نشہ استعمال ہوتا رہا
تاہم 18ویں صدی کے وسط میں حالات بدلنے لگے۔ ہزاروں سال سے مختلف جڑی بوٹیاں تو موجود تھیں، لیکن انہیں بطور دوا استعمال نہیں کیا گیا تھا اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ انہیں اینستھیزیا کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ہسپانوی فلسفی ریمنڈ لولی نے پہلی مرتبہ ایتھر نامی مرکب بنایا، جب انہوں نے زیادہ مقدار میں الکوحل ملی وائن میں سلفیورک ایسڈ کو ملا دیا۔
تاہم انہیں پتہ نہیں چلا کہ ایتھر میں بے ہوشی کی طاقت بھی موجود ہے، لیکن 15ویں صدی میں ویلیریس کارڈس اور پیراسیلس نے پہلی مرتبہ ایتھر کو بطور دوا ایجاد کیا، تاہم اس ایجاد کے باوجود یہ طے نہیں کیا گیا کہ ایتھر کو آپریشن کے دوران مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
اس کے بعد 18ویں صدی میں جارجیا کے ایک طبیب ڈاکٹر کرافورڈ لانگ نے اپنے مریض کی گردن پر رسولی دیکھی اور اس کی سرجری کا فیصلہ کیا۔
سرجری کے دوران مریض کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور آپریشن کامیابی سے مکمل ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ مریض ایتھر کا عادی تھا، جو وہ ڈانس پارٹیوں میں استعمال کرتا تھا۔
تاہم ڈاکٹر لانگ نے اس ایجاد کا اعلان نہیں کیا اور پہلی مرتبہ ایتھر کو بے ہوشی کے لیے استعمال کرنے کا کریڈٹ ڈاکٹر ولیم ٹی جے مورنٹن کو جاتا ہے۔
یوں ایتھر بطور بے ہوشی کی دوا متعارف ہوئی اور پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر 16 اکتوبر 1846 کو مریض کو بے ہوشی کے لیے ڈاکٹر مورٹن نے استعمال کیا۔ یہ سرجری کی دنیا میں ایک انقلاب تھا۔
اس سے دو سال قبل نائٹرس آکسائیڈ (N2O) یا لافنگ گیس کو بطور اینستھیزیا استعمال کیا جا چکا تھا، مگر اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر نہیں ہوئی کیوں کہ مریض نے کہا کہ اسے سرجری کے دوران درد محسوس ہوا تھا، اس لیے نائٹرس آکسائید کو مسترد کر دیا گیا۔
البتہ اگلے چند سال بعد معلوم ہوا کہ نائٹرس آکسائیڈ بھی ایتھر کی طرح بےہوشی کے لیے موثر ہے۔
آج کل ہونے والی سرجریز میں ایتھر کا استعمال تو ختم ہو گیا ہے لیکن نائٹرس آکسائیڈ آج بھی استعمال ہوتی ہے، تاہم اسے اکیلے نہیں بلکہ دوسری ادویات کے ساتھ ملا کر مریض کو ماسک کے ذریعے سنگھوایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مریض کو فوری بےہوش کرنے کے لیے انڈکشن ایجنٹ استعمال ہوتے ہیں اور پٹھوں کو پرسکون کرنے کے لیے مریض کو مسل ریلیکسنٹ بھی دیے جاتے ہیں۔