خناق کی وبا: کیا حکومت اعداد و شمار چھپا رہی ہے؟

ہماری حکومتیں اور صحت عامہ کے حکام ٹاکسن ٹیسٹ منفی آنے پر احتیاط کے طور پر ردعمل کو کم سے کم کر کے غلطی کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔

31 اکتوبر 2018 کی اس تصویر میں یمن میں ڈیفتھیریا سے متاثر ایک بچہ زیر علاج ہے (اے ایف پی/ محمد حویس)

یہ 2024 ہے لیکن طبی سائنس میں تمام تر ترقی کے باوجود پھر بھی ہمیں جراثیم سے پیدا ہونے والے انفیکشن خناق (ڈیفتھیریا) کا سامنا ہے، حالانکہ یہ ایک ایسی بیماری جس سے ویکسین کے ذریعے بڑی آسانی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

ویکسین کے ذریعے مکمل بچاؤ کے باوجود پاکستان کو خناق کی ایک بڑی وبا کا سامنا ہے اور ہزاروں نہ سہی تو سالانہ سینکڑوں نئے کیسز ضرور رپورٹ ہو رہے ہیں۔

جن میں ستمبر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس صورت حال سے میڈیکل کمیونٹی میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

ویکسین کی قلت کے باعث حفاظتی ٹیکوں کی عوام تک پہنچ میں خلل اورعوامی عدم اعتماد نے کوویڈ کے بعد اس بیماری کو دوبارہ سراٹھانے دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے ڈیفتھیریا کے کیسز کی تعداد اور زمینی سطح پر ماہرین اطفال اور معالجین کی جانب سے دیکھی جانے والی مریضوں کی تعداد کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔

حالیہ رپورٹوں کے مطابق سندھ میں خناق کے 184 مشتبہ کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے صرف 17 لیب سے تصدیق شدہ اور33 خارج شدہ کیس ہیں، جو خناق کے باعث اموات کی تعداد کے بالکل برعکس ہیں۔

سندھ میں، معالجین سرکاری اعداد و شمار کے مقابلے میں اس انفیکشن کی بہت بڑی تعداد دیکھ رہے ہیں، جس سے صحت عامہ کے اعداد وشمار کی درستگی اور وبا پھیلنے کے ممکنہ پیمانے کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں کیسز کی کم رپورٹنگ، طبی سہولیات کے انفراسٹرکچر میں خلل اور تشخیص میں تاخیر شامل ہیں۔

جو ڈیفتھیریا کا ٹیسٹ اور علاج کرنے والے مراکز تک محدود رسائی، کیسز کو رپورٹ کرنے میں ممکنہ ہچکچاہٹ اور اوپری سانس کی نالی کے عام انفیکشن کے لیے وسیع پیمانے پر ’اریتھرومائی سین‘ اور ’ازیتھیرومائی سین‘ جیسی اینٹی بیاٹکس کے استعمال کے باعث نیگیٹو کلچر سے بڑھ جاتی ہیں۔

ویکسین سے روکی جانے والی دیگر بیماریوں کی طرح پاکستان میں ڈیفتھیریا کی نگرانی بنیادی طور پر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ)، صوبائی محکمہ صحت، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیوایچ او) اور یونیسیف جیسے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کرتا ہے۔

بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے تحت صوبائی سطح پر نگران افسر خناق کے کیسز اور پھیلاؤ کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سندھ میں صوبائی محکمہ صحت کے پاس نگران ٹیمیں ہیں جو فیلڈ افسران کے ساتھ ہسپتالوں اور کلینک کے کیسز کا ریکارڈ دیکھتی ہیں۔

دی پروونشل ڈیزیز سرویلنس اینڈ رسپانس یونٹ (پی ڈی ایس آریو) خناق سمیت دیگر متعددی بیماریوں کی نگرانی کرتا ہے اورمرکزی حکومت سمیت بین الاقوامی اداروں کو رپورٹ کرتا ہے۔

اگرچہ ڈیفتھیریا کے جرثومے ’کورنی بیکٹیریم ڈیفتھیریا‘ کی موجودگی کی تصدیق کرنے والے کلچرز کی جانچ اور رپورٹنگ میں تاخیر ہوئی ہے لیکن ٹاکسن پروڈیوسنگ سٹرینز کے مسئلے نے ڈیفتھیریا کے پھیلاؤ کی حقیقی حد کو متاثر کیا ہے اور یہ بیماری کے بڑھتے حملے اور بےقابو پھیلاؤ میں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔

خناق کی تشخیص کے دو اہم عوامل ہیں۔ مریض کے گلے سے لیے ہوئے کلچر میں جرثومے کو الگ کرنا اور اس بات کا تعین کرنا کہ آیا یہ جرثومہ زہریلا مواد یا ٹاکسن پیدا کرتا ہے یا نہیں۔

موخرالذکر کو ایک ٹیسٹ یا پولیمریز چین ری ایکشن (پی سی آر) جیسے ٹیسٹوں کے ذریعے مکمل کیا جاتا ہے تاکہ ٹاکسن پیدا کرنے والے ذمہ دار جین کی شناخت کی جا سکے۔

اگرچہ صرف جراثیم کی موجودگی انفیکشن کا اشارہ دے سکتی ہے۔ تاہم ٹاکسن کی وجہ سے زیادہ شدید علامات ہوتی ہیں، جس میں سانس کی تکلیف، دل کے افعال میں خلل اور اعصاب کو نقصان پہنچنا شامل ہے۔

اگر کسی مریض کا کلچرمثبت ہے لیکن ٹاکسن نہیں ہے تواس سے نگران افسران سمیت بہت سے لوگوں کے لیے تشخیص کی غیر واضح صورت حال پیدا ہوتی ہے۔

کیا اس کیس کو خناق سمجھا جانا چاہیے اور کیا صحت عامہ کے اقدامات کو متحرک کیا جانا چاہیے؟

ہماری حکومتیں اور صحت عامہ کے حکام ٹاکسن ٹیسٹ منفی آنے پر احتیاط کے طور پر ردعمل کو کم سے کم کر کے غلطی کر رہے ہیں لیکن یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔

بہت سے حالیہ وبائی امراض میں، خاص طور پر وسائل کی کمی کا سامنا کرنے والے علاقوں (جیسے کہ نائجیریا اور بنگلہ دیش) میں جہاں خناق کی وبا کے اہم سیاسی یا معاشی نتائج ہو سکتے ہیں، بیکٹیریم کے مثبت کیس میں ٹاکسن کی عدم موجودگی کو ردعمل کی فوری ضرورت کم کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ ایک خطرناک مثال ہے۔ ٹاکسن نیگیٹو ڈیفتھیریا کے اعداد و شمار کی اہمیت کم سے کم کر کے، حکومتیں اور صحت کے حکام بنیادی طور پر بیکٹیریا کے ممکنہ کیریئرز کو نظرانداز کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔

اگرچہ فوری طور پر جان لیوا علامات ظاہر نہیں ہوتیں، پھر بھی یہ افراد اپنے علاقے میں بیکٹیریا پھیلا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے بیماری خاموشی سے پھیلتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اصل خطرہ بیکٹیریا کے ارتقا (بڑھنے) کی صلاحیت میں ہے۔ کورین بیکٹیریم کی نان ٹاکسن سٹڑینز جین کی افقی منتقلی کے ذریعے ٹاکسن کے لیے ضروری جینیاتی مواد حاصل کر سکتی ہیں۔

یہ خاص طورپر سے ان علاقوں میں تشویش ناک ہے جہاں ویکیسن کی کوریج کم ہے اور آبادی اس بیماری کا زیادہ شکار ہے۔

اس صورت حال میں اگر کوئی وبا پھیلتی ہے تو اس کے صحت عامہ پر پڑنے والے اثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں، کیونکہ وسیع پیمانے پر وبا دوبارہ پھیلنے پر قابو پانے اور اس کا علاج کرنے کے وسائل پہلے ہی محدود ہو سکتے ہیں۔

ٹاکسن نیگیٹو، کلچر پوزیٹو معاملات میں صحت عامہ کے اقدامات کو متحرک کرنے میں ناکامی بھی کم رپورٹنگ، وبائی امراض کے اعداد و شمار کو بگاڑنے اور درست نگرانی میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ردعمل کم کرنا ہنگامی حفاظتی ٹیکوں کی کوششوں اور زندگی بچانے والے ڈی اے ٹی کی خریداری جیسے ضروری علاج کے لیے وسائل کی تقسیم کو بھی متاثر کرتا ہے۔

حکومت اور صحت عامہ کے عہدیداروں کو ٹاکسن پروڈکشن سے قطع نظر تمام کلچر پوزیٹو ڈیفتھیریا کیسز کا علاج یکساں سنجیدگی کے ساتھ کرنا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فوری طور پر کیس مینیجمنٹ، جس میں بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مریض کو علیحدہ رکھنا، مریض کی حالت میں خرابی کا مشاہدہ کرنا، انفیکشن اور پھیلاؤ کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹکس اور ٹاکسن پوزیٹو کے لیے ڈی اے ٹی (ڈیفتھیریا اینٹی ٹاکسن) شامل ہیں یا جب ٹاکسن کے درجے سے قطع نظر شدید علامات کا شبہ ہو۔

خناق کے تصدیق شدہ کیس کے قریبی رابطوں (گھر کے ارکان، ہم جماعت، یا ساتھیوں) کی شناخت کی جانی چاہیے اور انہیں ایک احتیاطی طور پر اینٹی بائیوٹک دینی چاہیے اور سات سے 10 روز تک  کے علامات کی نگرانی کی جانی چاہیے۔

اس کے علاوہ متاثرہ علاقے میں گھر گھر جا کر ویکسینیشن کی جانی چاہیے تاکہ حفاظتی ٹیکوں کے خلل کو ختم کیا جا سکے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ یہ تیز رفتار اور کثیرالجہتی ردعمل پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے صحت کے نظام پر مزید بوجھ ڈال سکتا ہے، تاہم صحت کے سرکاری عہدیداروں کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اقدامات میں تاخیر یا کمی سے خطرہ بہت زیادہ ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں طبی دیکھ بھال کے وسائل اکثر بہت کم ہوتے ہیں، ڈیفتھیریا کی وبا کو قابو سے باہر ہونے سے روکنا نہ صرف مریضوں کے فوری علاج کے لیے بلکہ وسیع آبادی کی حفاظت کے لیے بھی اہم ہے۔

ڈاکٹر فائزہ جہاں کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کی چیئر ہیں۔

ان سے درج ذیل ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

[email protected]

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ