’جانداروں‘ کی تصاویر پر پابندی: افغان صحافی تشویش میں مبتلا

یہ پابندی وزارت کی جانب سے اگست میں جاری ہونے والے ’اخلاقی قوانین‘ کے ایک حصے کے طور پر لگائی گئی ہے لیکن طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں کی تصاویر پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔

30 اکتوبر 2021 میں کابل میں ایک طالبان اہلکار فوٹوجرنلسٹس کو خواتین کے احتجاج کی تصاویر لینے سے روکتے ہوئے (اے ایف پی)

افغانستان کے صحافیوں نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے ’جانداروں‘ کی تصاویر اور ویڈیوز پر پابندی نے ملک کے حوالے سے رپورٹنگ مشکل بنا دی ہے۔

افغان وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے میدان وردک، قندھار اور تخار کے ذرائع ابلاغ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ’روح رکھنے والی زندہ مخلوقات‘ کی تصاویر نہ دکھائیں۔ اس سے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر مراد لی جا رہی ہیں۔

وزارت کے ترجمان، سیف الاسلام خیبر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو تصدیق کی کہ طالبان کے میڈیا نے نئے قانون کی پابندی کرتے ہوئے منگل کو بعض صوبوں میں زندہ مخلوق کی تصاویر دکھانا بند کر دیا۔

یہ پابندی وزارت کی جانب سے اگست میں جاری ہونے والے ’اخلاقی قوانین‘ کے ایک حصے کے طور پر لگائی گئی ہے لیکن طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں کی تصاویر پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافی اب انسانوں اور جانوروں کی تصاویر یا ویڈیوز نہیں بنا سکتے۔ خاص طور پر فوٹو جرنلسٹس کو خدشہ ہے کہ یہ پابندیاں ان کی روزی پر منفی اثر ڈالیں گی۔

ایک افغان فوٹو جرنلسٹ نے طالبان کے ردعمل کے خوف سے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا کہ ’کس چیز کی اجازت ہے؟ عمارتوں، بینرز اور خالی جگہوں کی تصاویر کی۔ فی الحال قدرتی مناظر اور پہاڑوں کی تصاویر کی اجازت دی گئی ہے۔

’یہ صورتِ حال میرے اور دوسرے فوٹو جرنلسٹس کے لیے بگڑ رہی ہے۔ اس سے ہمارا تصاویر کھینچنے کا کام ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر میں تصویریں نہیں لیتا تو مجھے معاوضہ نہیں ملتا۔ میرا معاوضہ ان تصویروں سے ملتا ہے جو میں خبر رساں اداروں کو بھیجتا ہوں۔‘

جنوبی افغانستان میں بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے لیے فری لانس کام کرنے والے فوٹو جرنلسٹ کو ڈر ہے کہ طالبان کی جانب سے شریعت کی تشریح کے مطابق لگائی یہ پابندی میڈیا کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کا ایک اور ہتھیار ہے۔

افغانستان واحد ملک ہے جہاں ایسی پابندی لگائی گئی ہے۔ یہ پابندی 1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان کے پہلے دورِ حکومت کی یاد دلاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہر بار جب ہم کسی جگہ جاتے ہیں تو حکومتی اہلکار ہمیں تصاویر لینے سے روک کر ہراساں کرتے ہیں۔ ہمیں میڈیا بریفنگ اور صحافتی تقریبات میں بھی کھلے عام قبول نہیں کیا جاتا۔ مقامی طالبان رہنما ہمیں خواتین کی تصاویر لینے سے بھی منع کرتے ہیں، چاہے وہ حجاب یا برقعے میں ہوں۔ آنے والے دنوں میں یہ پابندی آہستہ آہستہ شدت اختیار کرے گی۔ میری صرف یہی امید ہے کہ دوسرے ممالک مداخلت کریں اور ہمیں افغانستان سے باہر نکالیں۔‘

ایک فوٹو جرنلسٹ، جنہوں نے 2021 میں طالبان کے کابل پر قابض ہونے اور اشرف غنی حکومت کو برطرف کرنے تک افغانستان کی رپورٹنگ کی، کا کہنا ہے کہ یہ فرمان دنیا کے لیے افغانستان میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھنے کے خاتمے کا آغاز ہے۔

افغانستان میں پیدا ہونے والے پلٹزر انعام یافتہ فوٹو جرنلسٹ مسعود حسینی نے کہا کہ ’یاد رکھیں یہ ان آخری مواقع میں سے ایک ہے جب بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی تصاویر اور ویڈیوز تک آزادانہ رسائی حاصل ہو رہی ہے جن میں سے کچھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اُجاگر کرتی ہیں۔

 ’اب یہ سب میڈیا کارکنوں کی سلامتی کی قیمت پر ہوگا۔‘

حسینی جو فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے لیے کام کر چکے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں مغربی حمایت یافتہ سابقہ حکومت کے دور میں بھی ان کے کام کی وجہ سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں مقامی افغان رہنماؤں نے کہا کہ ’آپ خواتین اور مردوں کی تصاویر لے رہے ہیں اور ہر اس شخص کی تصاویر لے رہے ہیں جو تصویر میں نہیں آنا چاہتا اور تصویر لینا حرام ہے۔

’ہم آپ کو خبردار کر رہے ہیں۔ اگر آپ نے یہ کام بند نہ کیا تو ہم آپ کو اسلامی طریقے سے سزا دیں گے۔ ان کا مطلب موت تھا صرف کوڑے مارنا یا قید نہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا