افغانستان میں جانداروں کی تصاویر کی اشاعت ممنوع: سرکاری میڈیا میں عمل درآمد شروع

اگست میں افغانستان کی طالبان انتظامیہ نے پبلک ٹرانسپورٹ، مردوں کی شیونگ، میڈیا اور تقریبات جیسے روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

26 اگست 2024 کو لی گئی اس تصویر میں ہلمند صوبے کے علاقے لشکر گاہ میں ایک ریستوران کے مینو پر کھانوں کی تفصیلات کے ساتھ 'مچھلی' کی سینسر شدہ تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ افغانستان کی طالبان کی اخلاقیات کی وزارت نے 14 اکتوبر کو ایک قانون نافذ کا اعلان کیا تھا (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

طالبان کے زیر انتظام میڈیا نے اخلاقی قوانین کی تعمیل کرتے ہوئے افغانستان کے کچھ صوبوں میں جانداروں کی تصاویر نشر کرنا بند کر دیں۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق رواں سال اگست میں افغانستان کی ’امر بل معروف و نہی انالمنکر‘ وزارت نے پبلک ٹرانسپورٹ، مردوں کی شیونگ، میڈیا اور تقریبات جیسے روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس قانون کا آرٹیکل 17 جانداروں کی تصاویر کی اشاعت پر پابندی عائد کرتا ہے، جس سے افغان میڈیا اور آزادی صحافت کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

’امر بل معروف و نہی انالمنکر‘ وزارت ایک ترجمان سیف الاسلام خیبر نے کہا کہ تخار، میدان وردک اور قندھار صوبوں میں سرکاری میڈیا کو کسی بھی جاندار یعنی انسانوں اور جانوروں کی تصاویر نشر نہ کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

سیف الاسلام خیبر نے ایک روز قبل ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ ان کی وزارت اخلاقی قوانین پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے۔

انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا یہ قوانین تمام میڈیا بشمول غیر ملکی اداروں پر لاگو ہوں گے یا صرف افغان چینلز اور ویب سائٹس پر اس کا اطلاق ہو گا۔

انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان قوانین کو کس طرح نافذ کیا جائے گا اور اس حکم کی تعمیل کی ڈیڈ لائن کیا ہے۔

افغانستان کے علاوہ سعودی عرب اور ایران سمیت کسی بھی دوسرے اسلامی ملک میں اس طرح کی پابندیاں عائد نہیں ہیں۔

1990 کی دہائی میں اپنی سابقہ حکومت کے دوران افغان طالبان نے ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔

2022 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کی عبوری حکومت نے خواتین اور لڑکیوں پر تعلیم اور ملازمتوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

اس سے قبل گذشتہ ماہ طالبان رہنما ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں حکومت کے تمام محکموں کے سربراہان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ منصوبوں کے افتتاح کے وقت ربن کاٹنے اور جوتوں کے ساتھ استقبال کے لیے بچھائے گئے قالینوں پر نہ چلیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان کی وزارت کی جانب سے طالبان کے تمام اداروں کے عہدیداروں کو بھیجے گئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ربن کاٹنا اور قالینوں پر جوتے پہن کر چلنا ’غیر مسلموں‘ کی روایات ہیں۔

گذشتہ ماہ ہی کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور ہالینڈ نے کہا تھا کہ وہ صنفی امتیاز کے باعث افغان طالبان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں شکایت درج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

26 ستمبر کو نیویارک میں ایک پریس کانفرنس میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے پہلے طالبان حکومت سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اگرچہ طالبان نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو شریعت کے مطابق حقوق دیے گئے ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیوں کی وجہ سے طالبان حکومت کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

افغان طالبان کی امارت اسلامیہ نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے چار یورپی ممالک کے مشترکہ بیان کے جواب میں کہا کہ تمام شہریوں کے حقوق کو یقینی بنایا گیا ہے۔

نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے امارت اسلامیہ کے خلاف اس طرح کے بیانات عجیب و غریب ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں انسانی حقوق کو یقینی بنایا جاتا ہے اور کوئی صنفی امتیاز نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا