کوئٹہ میں فوٹوگرافی کے سنہرے دور کی یادیں

80 کی دہائی میں کوئٹہ میں فوٹو گرافی کا کام شروع کرنے والے حسن آغا کے مطابق پہلے ’ایک تصویر کے لیے لوگ 10 دن سے زائد انتظار کرتے تھے لیکن اب تو ٹیکنالوجی آچکی ہے، اب لوگ کلر ڈیجیٹل پرنٹ کے لیے پانچ منٹ کا انتظار بھی نہیں کرتے۔‘

جدید ٹیکنالوجی سے قبل کوئٹہ میں فوٹوگرافرز کی چاندی ہوا کرتی تھی اور لوگ ایک تصویر کا پرنٹ حاصل کرنے کے لیے 10 سے 12 دن کا انتظار کیا کرتے تھے۔

 خصوصاً برف باری کے سیزن میں لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ گزارے حسین لمحات کو ہمیشہ کے لیے کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے کے لیے فوٹوگرافروں کی دکانوں کا رخ کیا کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

80 کی دہائی میں کوئٹہ میں فوٹو گرافی کا کام شروع کرنے والے حسن آغا اس دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس کوئٹہ میں پہلے تصاویر پرنٹ کرنے کے لیے کوئی انتظام نہیں تھا۔ ہم یہاں سے کیمرہ رول کراچی بھجوایا کرتے تھے، وہاں سے پرنٹ ہو کر آتے تھے۔ اس دوران ایک تصویر کے لیے لوگ 10 دن سے زائد انتظار کرتے تھے لیکن اب تو ٹیکنالوجی آچکی ہے، اب لوگ کلر ڈیجیٹل پرنٹ کے لیے پانچ منٹ کا انتظار بھی نہیں کرتے۔‘

حسن آغا نے 90 کی دہائی میں کراچی سے فوٹو میجک کی اُس وقت کی جدید فوٹو پرنٹر مشین 47 لاکھ روپے میں خریدی اور اسے استعمال کرنے کے لیے انہوں نے کراچی میں باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی، لیکن 2020 کے بعد اب یہ مشینیں کوڑیوں کے بھاؤ فروخت ہو رہی ہیں۔

حسن آغا کے پاس دکان میں اس وقت فوٹو میجک کے دو فوٹو پرنٹرز موجود ہیں، جن کی قیمت 90 سے 95 لاکھ روپے بنتی ہے لیکن ان کے مطابق اب یہ مشینیں کوئی کباڑ میں 10 لاکھ روپے میں بھی نہیں خریدے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی