افغانستان کی طالبان حکومت نے رواں سال اگست میں ’اخلاقی قوانین‘ کے تحت میڈیا کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ جانداروں کی تصاویر نہ دکھائیں۔ تاہم نئی پابندیاں صحافیوں کے لیے غیر یقینی صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اگست میں افغانستان کی ’امر بالمعروف، نہی عن المنکر‘ وزارت نے عوامی ٹرانسپورٹ، مردوں کی شیونگ، میڈیا اور تقریبات جیسے روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ان قوانین کا آرٹیکل 17 جانداروں کی تصاویر کی اشاعت پر پابندی عائد کرتا ہے۔
قندھار کے ’کلید‘ ریڈیو میں نو سال سے صحافت کرنے والے بخت محمد ریحان نے بتایا کہ یہ نیا فیصلہ افغانستان بھر میں صحافیوں کے لیے سنگین رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’گذشتہ 20 سالوں میں جمہوری ڈھانچے کے باعث افغانستان میں صحافت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا تھا، کچھ تنظیموں نے صحافیوں کو تربیت دی اور یونیورسٹیوں میں صحافت کے شعبے بھی بنائے گئے۔
’مگر طالبان کی واپسی کے بعد ان پابندیوں میں شدت آتی جا رہی ہے، خاص طور پر ویژول صحافت کرنا اب ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔‘
افغانستان میں 90 کی دہائی میں طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی اس طرز کی پابندیاں عائد کی گئی تھی۔
نئی پابندی کے اثرات قندھار کے علاوہ صوبہ تخار، میدان وردگ، خوست اور دیگر علاقوں میں بھی دیکھے جا رہے ہیں۔
ریحان بتاتے ہیں کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں صوبہ قندھار سے شروع ہونے والی یہ پابندی اب دیگر صوبوں تک پھیل رہی ہے، جہاں کے حکومتی نمائندے صحافیوں کو تصاویر یا ویڈیوز لینے سے روک رہے ہیں۔‘
افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بڑی تعداد میں نیوز چینلز بند یا نشریات محدود کر دی گئی ہیں۔
2021 کے وسط میں افغانستان پر طالبان کے قبضے سے پہلے افغانستان میں تقریباً 50 سے زائد ٹیلی ویژن چینلز اور 170 کے قریب ریڈیو سٹیشنز فعال تھے، جن میں سے زیادہ تر مقامی اور قومی سطح پر خبریں نشر کرتے تھے۔
تاہم طالبان حکومت کے دوران متعدد چینلز یا تو دوسرے ممالک منتقل ہوئے ہیں اور یا پھر اُن کی نشریات پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
افغانستان میں اب صرف چند ہی بڑے ٹی وی چینلز جیسے کہ طلوع نیوز، شمشاد ٹی وی اور آریانہ ٹی وی محدود سطح پر خبریں نشر کر رہے ہیں، لیکن انہیں بھی طالبان کی سخت نگرانی اور سنسر شپ کا سامنا ہے۔
ریحان کہتے ہیں کہ طالبان کی اس نئی پابندی کا اثر صحافیوں پر اس لیے بھی زیادہ پڑ رہا ہے کہ اگر تصاویر یا ویڈیوز نہ بنائی جائیں تو میڈیا اداروں کے لیے مقامی صحافیوں کی زیادہ ضرورت باقی نہیں رہتی۔
’اس پابندی کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ بہت سے صحافی بے روزگار ہو رہے ہیں، ان حالات میں کئی افغان میڈیا ادارے مالی مشکلات کا شکار ہیں اور کچھ تو سخت سنسرشپ کی وجہ سے اپنے دفاتر کو قریبی ممالک جیسے تاجکستان اور ازبکستان منتقل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور میڈیا چینلز کے دفاتر گئے بھی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پابندی ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب افغان میڈیا کو پہلے ہی کم ہوتی بین الاقوامی امداد اور اشتہارات کی پابندیوں کا سامنا ہے۔
ساتھ ہی میڈیا پر موسیقی، خواتین کی آوازوں اور دیگر حساس موضوعات پر بھی صحافیوں کو خاصی پابندیوں کا سامنا ہے۔
افغانستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے، خاص طور پر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں صحافیوں کو شدید مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے جیسے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق افغانستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافیوں کے لیے حالات نہایت دشوار ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں پچھلی دو دہائیوں میں 70 صحافی قتل کیے گئے، جن میں سے بیشتر طالبان یا دیگر عسکریت پسند گروہوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی 2023 کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’افغانستان صحافیوں کے لیے دنیا کے 10 خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے، افغانستان میں صحافیوں کو اغوا، تشدد، گرفتاری، اور دھمکیوں کا سامنا ہے، اور صحافیوں پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے کہ وہ ایسی رپورٹنگ نہ کریں جو حکومت کے خلاف سمجھی جائے۔‘
ریحان کے مطابق افغانستان میں اس وقت مختلف علاقوں کے لیے مختلف قوانین کے بدولت صحافی اکثر غیر یقینی صورت حال میں رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس واضح ہدایات نہیں ہوتیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔
’اس صورت میں صحافیوں کو اکثر ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
وہ طالبان حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافیوں کے لیے واضح پالیسی اختیار کی جائے۔
’اگر تبدیلیاں لانا ضروری ہیں تو انہیں واضح کریں تاکہ صحافی جان سکیں کہ کہاں کیا کرنے کی اجازت ہے اور کیا نہیں۔
’اب قندھار کے برعکس کابل جیسے صوبوں میں یہ سہولت ہے کہ خواتین میڈیا میں کام کرنے کے علاوہ چہرہ ڈھانپ پر سکرین پر آتی ہیں مگر قندھار اور ہلمند جیسے صوبوں میں سکرین تو دور خواتین ریڈیو پروگرام بھی نہیں کرسکتیں۔
اس صورت حال میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی ادارے بھی مسلسل طالبان حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ آزادی صحافت کا احترام کرے اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں بند کرے۔