کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور ہالینڈ نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ صنفی امتیاز کے باعث افغان طالبان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں شکایت درج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
نیویارک میں ایک پریس کانفرنس میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے پہلے طالبان حکومت سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اگرچہ طالبان نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو شریعت کے مطابق حقوق دیے گئے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیوں کی وجہ سے طالبان حکومت کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کی امارت اسلامیہ نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے چار یورپی ممالک کے مشترکہ بیان کے جواب میں کہا کہ تمام شہریوں کے حقوق کو یقینی بنایا گیا ہے۔
نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے امارت اسلامیہ کے خلاف اس طرح کے بیانات عجیب و غریب ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں انسانی حقوق کو یقینی بنایا جاتا ہے اور کوئی صنفی امتیاز نہیں ہے۔
کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور ہالینڈ کے وزرائے خارجہ نے کہا کہ ان کی حکومتیں طالبان سے انسانی حقوق اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کے حوالے سے افغانستان کے وعدوں کو پورا کرنے کی توقع رکھتی ہیں۔
ان کے مشترکہ بیان کے مطابق طالبان کا نیا قانون افغان معاشرے کے نصف حصے کو خاموش کرنے اور خواتین کو زندگی کے معمول کے عمل سے باہر کرنے کی کوشش ہے۔
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر صحافیوں کو بتایا کہ طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے اپنی نفرت کا مظاہرہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’وہ مستقل اور منظم جبر کی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔‘
پینی وانگ نے جرمنی کی قیادت میں قانونی دباؤ کو ’بے مثال‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ چاروں ممالک یہ دلیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ افغانستان خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس میں وہ ایک فریق ہے۔
آسٹریلین وزیر خارجہ نے افغانستان پر زور دیا کہ وہ کنونشن کے مطابق ان کے ساتھ شرکت مذاکرات میں کرے۔ اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو کنونشن میں کہا گیا ہے کہ تنازع کا کوئی بھی فریق ثالثی کی درخواست کر سکتا ہے۔
اگر اس میں شامل ممالک چھ ماہ کے اندر ثالثی پر اتفاق کرنے سے قاصر رہے تو کوئی بھی فریق اس تنازع کو عالمی عدالت انصاف میں بھیج سکتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے قانونی طور پر پابند ہیں لیکن عدالت کے پاس نفاذ کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔
افغانستان نے 2003 میں تمام قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کیے تھے۔
طالبان کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دینے والے ان ممالک کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان کو برسراقتدار حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن ان سے افغانستان کی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ممکنہ قانونی معاملے میں شامل ممالک کا کہنا ہے کہ وہ صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے نیک نیتی سے پہلے طالبان سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
لیکن انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر یہ کوششیں بے نتیجہ رہیں تو وہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں پیش کریں گے۔
20 سے زائد ممالک نے نیویارک میں ایک بیان جاری کیا جس میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر پابندی کے کنونشن کی ’سنگین اور منظم خلاف ورزی‘ پر افغانستان کے خلاف چار ممالک کی قانونی کارروائی کی حمایت کی گئی۔
جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا اور ہالینڈ کے اعلان کے ساتھ ساتھ البانیہ، بیلجیئم، آئس لینڈ، ملائیشیا، مراکش، پاناما، سیرالیون اور سلووینیا نے بھی طالبان حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
اسی طرح انسانی حقوق کے بعض محافظوں نے عالمی عدالت انصاف میں طالبان کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کا خیرمقدم کیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر طالبان حکومت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں شکایت کی گئی تو ان کے پاس جواب دینے کے لیے چھ ماہ کا وقت ہوگا۔
دوسری جانب کابل پر حکمران افغان طالبان اقوام متحدہ کے جاری اجلاس میں نمائندگی نہ ملنے پر ناراض ہیں۔
برکس اقتصادی فورم
افغانستان کی طالبان حکومت کے ایک ترجمان نے منگل کو روس میں گروپ کے سربراہ اجلاس سے قبل کہا برکس اقتصادی فورم میں شمولیت کی خواہاں ہے۔
حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے کہا، ’بڑے وسائل والے ممالک اور دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں برکس فورم سے وابستہ ہیں، خاص طور پر روس، بھارت اور چین۔
’فی الحال ہمارے ان کے ساتھ اچھے اقتصادی تعلقات اور تجارتی تبادلے ہیں۔ ہم اپنے تعلقات کو وسعت دینے اور برکس کے اقتصادی فورمز میں حصہ لینے کے خواہاں ہیں۔‘
طالبان حکام کو کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ان کے چین اور روس سمیت بانی برکس ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں۔
اس گروپ نے، جس میں حال ہی میں ایران، متحدہ عرب امارات، مصر اور ایتھوپیا شامل ہوئے ہیں، طالبان حکومت کے بیانات پر عوامی طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔