ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری شخصیت کو تین لفظوں میں یوں سمویا جا سکتا ہے: منفرد، مقبول، متنازع؛ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی سیاسی تاریخ میں ان جیسا کوئی کردار آج تک سامنے نہیں آیا جنہوں نے سیاست کرنے، الیکشن لڑنے اور حکومت کرنے کے انداز ہی کو بدل ڈالا ہے، اور ان کے قریبی ساتھی بھی نہیں جانتے کہ وہ اگلے لمحے کیا فیصلہ کر بیٹھیں گے۔
ان کے ساتھ ایک دو نہیں، دسیوں ایسے سکینڈل وابستہ ہیں جن میں سے ہر ایک کسی بھی دوسرے سیاست دان کا کیریئر جلا کر راکھ کر دیتا، مگر ٹرمپ ہیں کہ ہر تنازعے کے ملبے سے یوں برآمد ہوتے ہیں کہ ان کے سیاسی قد اور انتخابی اہمیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
ابتدائی زندگی
ڈونلڈ جان ٹرمپ کی کہانی نیویارک کے علاقے کوینز سے شروع ہوئی، جہاں ان کی پیدائش 14 جون 1946 کو ہوئی۔
ان کے والد، فریڈ ٹرمپ جرمنی سے ہجرت کر کے امریکہ آباد ہوئے تھے جہاں انہوں نے پراپرٹی کے کاروبار میں خاصی کامیابی بٹوری۔
خاندانی دولت کے باوجود ٹرمپ سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے والد کی کمپنی میں ملازمت کریں گے۔ جب انہوں نے سکول میں شرارتیں شروع کیں تو انہیں 13 سال کی عمر میں ملٹری اکیڈمی بھیج دیا گیا۔
ٹرمپ یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے وارٹن سکول سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد، اپنے والد کے جانشین بنے کیونکہ ان کے بڑے بھائی فریڈ پائلٹ بننے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
فریڈ ٹرمپ 43 سال کی عمر میں شراب نوشی کی لت کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے، جس کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے یہی وہ وجہ ہے جس نے انہیں پوری زندگی شراب اور سگریٹ سے دور رکھا۔
ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے ایک ملین ڈالر کا ’چھوٹا سا‘ قرض لے کر رئیل سٹیٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔1971 میں،اپنے والد کے رئیل سٹیٹ کاروبار کی ذمہ داری سنبھالی اور اسے ’ٹرمپ آرگنائزیشن‘ کے نام سے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
ان کی قیادت میں یہ کمپنی ہوٹلوں، رہائشی تجارتی عمارتوں، اور ریزورٹس کے ساتھ ساتھ کیسینو اور گالف کورسز میں بھی پھیل گئی۔ ٹرمپ ٹاور اور گرینڈ ہائٹ جیسی عمارتیں ان کے کاروباری ذہانت کی عکاسی کرتی ہیں۔
مین ہیٹن میں ٹرمپ ٹاور نہ صرف ان کا گھر تھا بلکہ ان کی شہرت کا مرکز بھی بن گیا۔
ٹرمپ اپنے والد کو اپنی ’انسپریشن‘ قرار دیتے ہیں، جو 1999 میں انتقال کر گئے۔
ٹرمپ اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا
ٹرمپ کی شخصیت میڈیا کے لیے ہمیشہ ایک دلچسپ موضوع رہی۔ مس یونیورس، مس یو ایس اے اور مس ٹین یو ایس اے جیسے مقابلوں کے اونر رہنے کے ساتھ انہوں نے 2004 میں ایک ٹی وی شو ’دی اپرینٹس‘ شروع کیا، اور اس کی میزبانی کرتے ہوئے ان کا جملہ ’You're fired!‘ بے حد مقبول ہوا جو ان کی گھر گھر پہچان بھی بنا۔
سیاست کا آغاز
ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاست میں سفر ایک غیر روایتی اور حیران کن انداز میں شروع ہوا۔
1980 میں ایک انٹرویو میں 34 سالہ ٹرمپ نے سیاست کو 'خود غرض زندگی' قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ 'سب سے زیادہ قابل لوگ' کاروباری دنیا کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔
لیکن کاروبار، تعمیرات، اور میڈیا میں اپنی شناخت بنانے کے بعد، انہوں نے 2015 میں امریکی صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ اپنی پہلی تقریر میں ہی انہوں نے امریکا میں آنے والی تبدیلی کی ضرورت اور ملکی ترقی کو بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
مین ہیٹن میں واقع اپنے ٹرمپ ٹاور کے تہہ خانے میں آٹھ امریکی پرچموں کے سامنے دیے گئے خطاب میں انہوں نے میکسیکو کے امیگرنٹس کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ’وہ اپنے بدترین لوگ امریکہ بھیج رہے ہیں‘، جن میں مجرم اور ’ریپسٹ‘ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے اس خطاب میں یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر انہیں صدر منتخب کیا گیا تو وہ امریکہ کی جنوبی سرحد پر ایک عظیم دیوار تعمیر کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے امریکی خواب مر چکا ہے، لیکن میں اسے واپس لاؤں گا، پہلے سے بڑا، بہتر اور مضبوط‘
’Make America Great Again‘
یعنی ماگا (MAGA) ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس تک پہنچانے والے ان چار الفاظ کی بنیاد برسوں پہلے پڑی تھی۔ لیکن اس وقت شاید ہی کوئی سوچ سکتا تھا کہ ٹرمپ خود کو امریکہ کے 45ویں صدر کی حیثیت سے حلف لیتے ہوئے دیکھیں گے۔
2016 کے صدارتی انتخاب میں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اسی سلوگن کے ساتھ رپبلکن پارٹی کی نامزدگی جیتی اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو شکست دے کر امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔
ٹرمپ سیاسی دور
سیاست میں کوئی تجربہ نہ ہونے کے باوجود، ٹرمپ نے امریکہ کا صدر بننے کے بعد اپنے خیالات اور پالیسیاں امریکی عوام تک پہنچانے کے لیے روایتی راستوں کے بجائے ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کیا، اور ٹوئٹر پر ہی اپنے بیانات سےغیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ کھلی ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کی۔
انہوں نے اپنے دور میں بڑے موسمیاتی اور تجارتی معاہدوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا، سات مسلم اکثریتی ممالک سے سفر پر پابندی عائد کی، سخت امیگریشن قواعد متعارف کرائے، چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کیا، ریکارڈ ٹیکس کٹوتیاں نافذ کیں، اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کو نئی شکل دی۔
اس کے علاوہ، انہوں نے عدلیہ میں اہم تبدیلیاں کیں اور سپریم کورٹ میں کئی ججوں کی تقرری کی۔ فوجی بجٹ میں اضافہ، سرحدی سکیورٹی کو سخت کرنا، اور کرمنل جسٹس ریفارمز بھی ان کی پالیسیز میں شامل رہے۔
ان کی خارجہ پالیسی میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنا اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کرنا شامل تھا، جس سے امریکہ اور شمالی کوریا کے تعلقات میں ایک نیا باب رقم ہوا۔
20 جنوری 2020 کو امریکہ میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تشخیص ہوئی، اور اس کے بعد ٹرمپ کی صدارت کا بقیہ دور اسی وبا کا مقابلہ کرنے میں گزر گیا۔
کورونا وبا سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے ٹرمپ کو ناقدین کی سخت تنقید بھی برداشت کرنی پڑی، جن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا وبائی مرض کے حوالے سے ردعمل تاخیر سے آیا جس وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ کو بروقت کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ جب ٹرمپ صدارت کا عہدہ چھوڑ رہے تھے، اس وقت امریکہ میں 400,000 سے زائد اموات ہو چکی تھیں۔
ٹرمپ اور کیپیٹل ہل پر حملہ
2021 انتخابات میں ایک بار پھر ٹرمپ صدر بننے کی دوڑ میں شامل ہوئے اگرچہ انہوں نے 74 ملین ووٹ حاصل کیے، جو کسی بھی موجودہ امریکی صدر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں، لیکن انہیں ڈیموکریٹ کے مسٹر جو بائیڈن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا۔ 6 جنوری 2021 کو، ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن، ڈی سی میں ’سیو امریکہ‘ ریلی میں شرکت کی۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب خطاب کرتے ہوئے کانگریس میں اپنے حامیوں سے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی جس کے بعد ان کے حامی کیپیٹل ہل پر حملہ آور ہو گئے۔ اور اس تشدد کے نتیجے میں پانچ افراد کی موت ہوئی اور کیپٹل کمپلیکس کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
یہ ٹرمپ کے سیاسی کیریئر کا ایک تاریک لمحہ تھا۔ انہیں ہر جگہ سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کے ہر وقت ٹوئٹر پر ایکٹیو رہنے والے ٹرمپ کو وہاں سے بھی بین کر دیا گیا۔
اس حملے کے بعد انہیں ایک بار پھر مواخذے کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں وہ امریکی تاریخ کے واحد صدر بن گئے جن کا دو مرتبہ مواخذہ ہوا۔
لیکن یہ سب مشکلات انہیں پیچھے نہ ہٹا سکیں۔ اور 2024 میں ایک بار پھر ٹرمپ امریکہ میں ایک بڑی سیاسی طاقتور شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور موجودہ صدر بائیڈن کو پہلےمباحثے میں ہی ان سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
جس کے بعد جوبائیڈن نے 2024 کے صدارتی انتخابات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور اب ٹرمپ کا مقابلہ نائب صدر کملا ہیرس سے ہے۔
عمران خان ٹرمپ ملاقات
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ایک اہم موقع تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات، خطے کی سلامتی، اور اقتصادی تعاون پر بات چیت کی۔
یہ ملاقات 2019 میں واشنگٹن ڈی سی میں ہوئی، یہ ملاقات ان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ تھی جو افغان تنازع کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہوئے تھے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے ملاقات میں پاکستان کی پوزیشن واضح کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا۔
اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششوں پر بھی زور دیا اور ٹرمپ نے پاکستان آنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
اس ملاقات میں ٹرمپ نے کشمیر تنازعے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں مدد کر سکتا ہوں تو میں ایک ثالث بننے کے لیے خوش ہوں گا۔‘
یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی اور نئے دور کے آغاز کی علامت سمجھی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کے دور صدارت میں ایسا تاثر بھی گیا کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو پسند کرتے ہیں، انہوں نے عمران خان کو ’ہینڈسم‘ اور ’ باس‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا۔
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جہاں ٹرمپ کو شکست ہوئی، وہیں پاکستان کی سیاسی صورتحال بھی ان گزشتہ سالوں میں بہت تبدیل ہو گئی، عمران خان کو ووٹ آف نو کانفیڈنس سے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا اور اس وقت وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے جیل میں قید ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں امریکہ کا ایک اہم کردار رہا ہے، گو کہ عمران خان نے اپنی حکومت جانے کے پیچھے ’امریکی سازش‘ کا نعرہ بھی بلند کیا تھا، تاہم پی ٹی آئی سپورٹرز کو امید ہے کہ بائیڈن کے جانے اور ٹرمپ کے آنے کے بعد حالات میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
انہیں امید ہے کہ اگر ان انتخابات میں ٹرمپ ایک بار پھر امریکہ کے صدر بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ جیت بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے لیے بھی کچھ آسانیاں لا سکتی ہے۔