اقوام متحدہ کے مطابق طالبان حکومت کی پابندی کے باوجود رواں سال افغانستان میں پوست کی کاشت میں 19 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے ایک نئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت افغانستان میں 12 ہزار 800 ہیکٹر پر پوست کاشت کی جاتی ہے۔
اس ملک کی 80 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔
یو این او ڈی سی نے مزید کہا ہے کہ 19 فی صد سالانہ اضافہ طالبان کے سپریم رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ کے اپریل 2022 میں فصل پر پابندی لگانے کے بعد کا ہے۔
طالبان نے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال بعد افیون کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی۔ جب یہ پابندی عائد کی گئی تب دو لاکھ 32 ہزار ہیکٹر رقبے پر یہ فصل اگائی جا رہی تھی۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ پوست کی کاشت کا مرکز بھی تبدیل ہو گیا ہے اور اب یہ طالبان کے مضبوط گڑھ کے بجائے شمال مشرقی صوبوں میں ہے۔
مئی میں شمال مشرقی بدخشاں میں کسانوں اور ان کے پوست کے کھیتوں کو تباہ کرنے کے لیے بھیجی گئی بریگیڈز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کئی اموات بھی ہوئیں۔
پوست پر پابندی کے بعد رال کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس سے افیون اور ہیروئن بنائی جاتی ہے۔
یو این او ڈی سی کے مطابق 2024 کی پہلی ششماہی کے دوران قیمتیں تقریباً 730 ڈالر فی کلو گرام (دو پاؤنڈ) پر تھیں جبکہ 2022 سے پہلے یہ 100 ڈالر فی کلو گرام تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی برسوں تک افغانستان دنیا میں افیون اور ہیروئن کا سب سے بڑا فروخت کنندہ رہا۔
دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک افغانستان کے بہت سے کسان اس پابندی سے مالی طور پر بری طرح متاثر ہوئے اور متبادل فصلوں سے اتنا منافع حاصل نہیں کر پائے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ (آئی سی جی) کے مطابق، قانونی طور پر جو فصلیں اگانے کی اجازت ہے وہ صرف ایک قلیل مدتی حل ہیں، ’لہذا توجہ غیر زرعی صنعتوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر ہونی چاہیے۔‘
یو این او ڈی سی اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) نے کسانوں کو متبادل فصلوں اور روزگار کی طرف منتقلی کے لیے بین الاقوامی مدد کی اپیل کی ہے، جس کا مطالبہ طالبان حکومت نے بھی کیا ہے۔
یو این او ڈی سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غدا ولی نے ایک بیان میں کہا: ’افغانستان میں پوست کی کاشت کم سطح پر ہے، ہمارے پاس موقع اور ذمہ داری ہے کہ ہم افغان کسانوں کو غیر قانونی منڈیوں سے ہٹ کر آمدنی کے پائیدار ذرائع پیدا کرنے میں مدد کریں۔‘