امریکہ کے افغانستان کے حالات پر نظر رکھنے والے ادارے سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار/ SIGAR) نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2023 میں پچھلے سالوں کے مقابلے میں افغانستان میں افیون یا پوست کی کاشت میں 95 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
تاہم 30 جولائی کی اس رپورٹ میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ کاشت کی کمی سے ہزاروں کاشت کاروں کا اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب گیا ہے اور ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
سیگار کی جانب سے افغانستان کے حالات پر ہر سہ ماہی رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں مختلف شعبوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکہ نے 20 سالوں میں منشیات کی روک تھام پر تقریباً نو ارب ڈالر (دو ہزار 500 ارب روپے) لگائے، لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔ تاہم طالبان نے کم عرصے میں اس پر قابو پالیا ہے۔
افغانستان میں افیون کی موجودگی 18ویں صدی میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی تھی، لیکن 1970 کے بعد پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔
سیگار کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کا افیون کی آمدنی پر انحصار بھی رہا ہے، تاہم ماضی میں بھی انہوں نے مذہبی بنیاد پر اس پر پابندی عائد کی تھی۔
افغان طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت میں 1996 میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی، لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔
اس کے بعد طالبان نے پانچ مرتبہ مختلف مواقع پر پابندی لگائی، لیکن 2000 میں پابندی لگنے کے بعد افیون کی کاشت 82 ہزار ایکڑ زمین سے کم ہو کر آٹھ ہزار ایکڑ تک رہ گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق اسی پابندی کے نتیجے میں متاثرہ لوگوں کی جانب سے 2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہونے پر طالبان کو کم سپورٹ فراہم کی گئی کیونکہ طالبان نے افیون پر پابندی ایسے وقت میں لگائی تھی جب پوست کی فصل تیار تھی۔
امریکہ کیوں منشیات کی روک تھام میں ناکام رہا؟
اس رپورٹ میں اس بات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے کہ 2001 سے 2021 تک نو ارب ڈالر لگانے کے باوجود امریکہ منشیات کی روک تھام میں کیوں ناکام رہا۔
وجوہات میں لکھا گیا ہے کہ پابندی کے بعد مقامی آبادی کی بین الاقوامی کمیونٹی سے شکایتیں بڑھ گئیں اور اس پابندی سے اس وقت پرائیویٹ ملیشیا، سیاستدان، لینڈ لارڈز اور افغان سکیورٹی فورسز نے فائدہ اٹھایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری وجہ رپورٹ کے مطابق یہ تھی کہ اس وقت ایک غلط بیانیہ سامنے آیا تھا کہ طالبان کی 60 فیصد آمدنی افیون سے آتی ہے اور اسی بنیاد پر امریکہ پالیسی بناتا تھا، جس کا نقصان یہ ہوا کہ عوام زیادہ تر طالبان کے قریب ہوگئے کیونکہ امریکی ہیروئن کے لیبارٹریز کو بموں سے اڑاتے تھے اور زبردستی پوست کی کاشت تلف کرتے تھے۔
طالبان کی جانب سے 2022 میں پابندی
افغان طالبان کی جانب سے نگران حکومت قائم کرنے کے بعد طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگائی اور اس کے خلاف افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخونزادہ نے فتویٰ بھی جاری کیا۔
فتوے میں بتایا گیا تھا کہ پوست کی کاشت پر مکمل پابندی ہوگی اور کاشت کرنے والوں کو اسلامی شریعت کے مطابق سزا دی جائے گی۔
تاہم، 2021 میں پابندی کے بعد 2022 میں پوست کی کاشت میں 32 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ پوست کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافہ ہوا تھا اور کاشت کاروں نے افیون کو ذخیرہ کرنا بھی شروع کیا۔
اس کے بعد رپورٹ کے مطابق 2023 میں افیون کی کاشت میں 85 فیصد کمی آئی، جبکہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات کنٹرول کے مطابق کاشت میں 95 فیصد کمی آئی لیکن تجارت جاری رہی کیونکہ بعض کاشت کاروں نے افیون کا سٹاک رکھا ہوا تھا۔
کاشت میں کمی سے قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ رپورٹ کے مطابق مئی 2022 میں فی کلو افیون کی قیمت تقریباً 44 ہزار روپے تھی، لیکن مئی 2023 میں یہ قیمت تقریباً 80 ہزار فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
پوست کی کاشت کی کمی سے کاشت کاروں کو نقصان
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف اگر کاشت میں کمی دیکھی گئی ہے، تو دوسری جانب کاشتکاروں کو بے یارو مددگار چھوڑا گیا اور چند ہی کاشتکاروں کو اس کی جگہ گندم کاشت کرنے کے لیے سہولت دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گندم سے زر آمدنی پوست کے مقابلے میں کم ہے اور اس وجہ سے پاکستان سے کم قیمت میں درآمد ہونے والے گندم کا مقابلہ مشکل ہے۔
آمدنی کی بات کی جائے تو رپورٹ کے مطابق کاشت کاروں کی آمدنی میں 92 فیصد کمی آئی ہے اور 2022 میں ایک ارب ڈالر سے آمدنی کم ہو کر 100 ملین ڈالر تک 2023 میں آگئی ہے۔
اسی طرح پابندی کے بعد رپورٹ کے مطابق ذخیرہ شدہ پوست کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ بھی ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگست 2023 میں فی کلو افیون ایک لاکھ روپے تھی جبکہ دسمبر 2023 میں فی کلو افیون کی قیمت دو لاکھ روپے تک پہنچ گئی تھی۔