لاہور سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ سیرین خان نے چند روز قبل اپنی والدہ صباح فاروق کے ساتھ مل کر لاہور ہائی کورٹ میں بیرسٹر احمد پنسوٹا کے توسط سے ایک پٹیشن جمع کروائی، جو تعلیمی اداروں میں بچوں کی بلیئنگ (Bullying) یعنی بدسلوکی، سائبر بلیئنگ اور ہراسانی کے واقعات سے متعلق تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے پیر کو اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے محکمہ سکول ایجوکیشن کے صوبائی سیکرٹری کو تعلیمی اداروں میں بچوں کی بلیئنگ، سائبر بلیئنگ اور ہراساں کرنے کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
درخواست گزار سیرین خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’میں خود کو بچوں اور جانوروں کے حقوق کا کارکن سمجھتی ہوں کیونکہ میں نے ہمیشہ ان لوگوں کی بات کی ہے جو مجھے کمزور محسوس ہوتے ہیں اور انہیں تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
سیرین کا کہنا تھا: ’مجھے یوں لگتا ہے کہ سکولوں کو بلیئنگ اور ایذا رسانی سے پاک ہونا چاہیے۔ میں اپنے سکول کی لا سوسائٹی کی سربراہ بھی ہوں، اس لیے میں نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے تحفظ کی بات ہے اور میرے خیال میں بچوں کی تعلیم اور عزت کا حق ایک بنیادی حق ہے اور سائبر یا جسمانی بلیئنگ اس حق کی خلاف ورزی ہے۔‘
سیرین خان کی والدہ خود ایک وکیل ہیں اور اس کیس میں ان کی کونسل بھی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سیرین کی والدہ صباح فاروق نے بتایا کہ انہیں بہت عرصے سے اس بات پر اعتراض تھا کہ سکولوں کے پاس بلیئنگ کے خلاف کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں ہوتی جبکہ دیگر ممالک کے پاس ایسی پالیسیاں ہوتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’چونکہ میری بچیاں سکولوں میں پڑھتی تھیں اور بلیئنگ کے حوالے سے جب بھی میں نے سکولوں کی انتظامیہ سے بات کی، انہوں نے یہی بتایا کہ ان کے پاس ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ اگر کوئی شکایت آئے تو ہم اسے دیکھ لیتے ہیں، یعنی کوئی باقاعدہ طریقے کار نہیں تھا۔‘
صباح نے بتایا کہ چونکہ وہ ایک وکیل ہیں اور مفاد عامہ کے لیے پٹیشن کر سکتی ہیں، اسی لیے انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر یہ درخواست عدالت میں دائر کی۔
’میں نے اپنی بیٹی کو اس لیے شامل کیا کیونکہ وہ بچوں اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں اور ہم چاہتے تھے کہ عدالت اور سب کو یہ معلوم ہو کہ ایک بچے نے درخواست دی ہے اور بچے بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ بلیئنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حوالے سے قوانین بننے چاہییں۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں نے اپنی پٹیشن میں لکھا تھا کہ آغا خان کے نفسیاتی وارڈ میں بچوں کے جتنے کیسز آتے ہیں ان میں سے 50 فیصد کیسز ان بچوں کے ہوتے ہیں جو بلیئنگ کا شکار ہوتے ہیں۔‘
صباح کا کہنا تھا کہ بطور وکیل مجھے محسوس ہوا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اس کے لیے کچھ کروں۔
’بطور ماں تو میں صرف یہ کر سکتی تھی کہ میں جا کر سکول والوں سے بات کر لوں یا دوسری ماؤں سے، لیکن بطور وکیل میں اس مسئلے کو عدالت تک لے کر جا سکتی تھی تاکہ وہاں جا کر کہوں کہ قانون بنایا جائے، جو صوبائی سطح پر بھی ہو اور وفاقی سطح پر بھی ہو۔‘
ان کے خیال میں جب قانون بنے گا تو سب پہلے تو تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ بچوں اور والدین کو بلیئنگ کے حوالے سے آگاہی دیں گے۔ ’اسی طرح ماں باپ کو بھی معلوم ہو گا کہ اگر ان کا بچہ بلیئنگ کا شکار ہوا تو اس حوالے سے قوانین موجود ہیں اور وہ ایکشن لے سکتے ہیں۔‘
سیرین کے وکیل بیرسٹر احمد پنسوٹا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہم نے اس پٹیشن میں وفاقی و صوبائی حکومت، سکول ایجوکیشن اور چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو ، سب کو فریق بنا کر عدالت سے درخواست کی ہے کہ عدالت وفاقی اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کرے کہ سکولوں میں ہونے والی بلیئنگ کے خلاف ایک قانون بنائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیر کو ہونے والی سماعت میں سپیشل سیکریٹری ایجوکیشن عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ایک قانون موجود ہے جس میں ترمیم کی جاسکتی ہے اور وہ درخواست گزار کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔
احمد پنسوٹا کے مطابق: ’سپیشل سیکریٹری کے اس بیان کی روح میں جج صاحب نے ایک کمیٹی بنانے کی ہدایت دی جو کہ سیکرٹری ایجوکیشن بنائیں گے۔ اس کمیٹی میں درخواست گزار کی جانب سے مجھے، ایڈوکیٹ رملہ الطاف بیگ، بیرسٹر سحر بندیال اور دیگر کو شامل کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے کمیٹی کو تجاویز لے کر 21 نومبر کو دوبارہ عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔
بیرسٹر احمد پنسوٹا کا کہنا تھا کہ سکولوں میں بلیئنگ کا موجودہ قوانین میں ذکر نہیں ہے۔
’پنجاب فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن 2014 کا قانون ہے، پرائیویٹ سکولز کا علیحدہ قانون ہے، اس کے علاوہ بھی قوانین موجود ہیں لیکن ان میں جسمانی تشدد اور ہراسمنٹ کا ذکر ہے لیکن کسی میں بلیئنگ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ مجھے امید ہے کہ کمیٹی کی ملاقات کے بعد یہ باقاعدہ قانون کا حصہ بن جائے گا۔‘
بیرسٹر احمد پنسوٹا کا کہنا تھا: ’بلیئنگ کی مختلف اقسام ہیں۔ ہمارا معاشرہ ابھی اس چیز سے ہی آگے نہیں جا سکا کہ کسی کا رنگ کیسا ہے، کسی کا جسم کیسا ہے یا کسی کا قد کیسا ہے اور اس طرح کی چیزوں پر ہی بچوں کو زیادہ تر بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’ہم نے اپنی پٹیشن میں کہا ہے کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل چار انسان کی ساکھ کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس میں بڑے، بچے سب آجاتے ہیں۔ آرٹیکل نو کہتا ہے کہ ایک اچھے اور خوبصورت معاشرے میں زندگی گزارنا سب کا حق ہے۔ آرٹیکل 14 کہتا ہے کہ کسی شخص کی عزت نفس یا وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ آرٹیکل 25 فری ایجوکیشن کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 35 تو خصوصاً کہتا ہے کہ ریاست بچوں کو اور خواتین کو تحفظ دے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ ہم نے پٹیشن میں بین الاقوامی قوانین کی بات کی اور کہا کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن 1989، ہم اس کے سگنیٹری ہیں اور اس پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس کا آرٹیکل 19 کہتا ہے کہ بچوں کی ہر طرح کے تشدد سے حفاظت کی جائے اور اس میں بلیئنگ بھی شامل ہے، لیکن افسوس کہ ہم اس پر باقاعدہ عمل درآمد نہیں کر رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسی چارٹر کا آرٹیکل 20 بچوں کو تعلیم کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اسی طرح یو این سی آر سی کا آرٹیکل چار بھی یہی کہتا ہے کہ بلیئنگ کو روکا جائے، لیکن ہم ابھی تک ایسا کچھ نہیں کر سکے۔‘
انہوں نے دیگر ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فلپائن، کینیڈا، جنوبی افریقہ کا اپنا قانون ہے جو بلیئنگ کے خلاف ہے۔
بقول احمد پنسوٹا: ’ہمارا چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ ہے، اس کے اندر بھی بلیئنگ کے حوالے سے بات ہونی چاہیے۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ایک چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ہے جو کابینہ نے منظور کر دی ہے لیکن ابھی تک اس کا نوٹفیکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ اس پالیسی کے اندر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ بچوں کی بلیئنگ کے خلاف قوانین بنائے جائیں گے یا اس پر بات کی جائے گی لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا لیکن پیر کو جج صاحب نے اس پر عمل درآمد کا بھی کہا ہے۔‘
پیر کو جسٹس جواد حسن نے سیرین خان اور ان کی والدہ صباح فاروق کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی درخواست پر سماعت کے دوران محکمہ سکول ایجوکیشن کے سپیشل سیکرٹری محمد اقبال عدالت میں پیش ہوئے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پہلے ہی پنجاب فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 2014 اور پنجاب پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز (پروموشن اینڈ ریگولیشن) آرڈیننس 1984 کے تحت سکولوں میں بدمعاشی کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عثمان خان نے عدالت میں بتایا کہ متعلقہ اتھارٹی نے بلیئنگ کو روکنے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی ہیں تاہم عدالت تمام سکولوں میں محفوظ تعلیمی ماحول کے تصور کو تقویت دینے کے لیے قانون کی متعلقہ دفعات کو مزید وسعت دے سکتی ہے۔
فاضل جج نے قرار دیا کہ سکول ایجوکیشن سیکریٹری صوبے کے تمام تعلیمی اداروں کے باضابطہ سربراہ ہیں اور انہیں تعلیم سے متعلق مختلف شعبوں میں قانون سازی، پالیسی سازی اور منصوبہ بندی تجویز کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے، جیسا کہ قواعد کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
انہوں نے پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور کی چیئر پرسن کو اگلی تاریخ پر طلب کرتے ہوئے کہا کہ کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ کیا سکولوں میں غنڈہ گردی اور ہراساں کرنے کے لیے چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کافی ہے؟
جسٹس جواد حسن نے صوبائی سیکرٹری کو ایک کمیٹی بنانے کا بھی حکم دیا، جو تعلیمی اداروں اور اپنےآن لائن فورمز کے ذریعے سکول جانے والے بچوں کو جسمانی/سائبر دھونس اور ہراساں کرنے پر قابو پانے کے لیے کوششیں کرے گی۔
یہ کمیٹی درخواست گزار اور ان کے وکیل سمیت متعلقہ شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہوگی۔
اس کے بعد کیس کی سماعت 21 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔