غزہ میں اسرائیلی محاصرے کے بعد خوراک، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر 24 گھنٹوں کے اندر وہاں امداد نہ پہنچی تو بحران بد ترین شکل اختیار کر لے گا۔
پاکستان میں فلسطینی سٹوڈنٹ یونین کے صدر ابراہیم بلال نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں مختلف یو نیورسٹیوں میں اس وقت 200 طالب علم زیر تعلیم ہیں اور وہ سبھی اس وقت فلسطین کی صورت حال پر پریشانی سے دو چار ہیں۔
عبدالرحمٰن 21 برس کے ہیں اور دو سال سے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں کمپیوٹر انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان کا تعلق غزہ سے ہے۔ ان کے تین بھائی اور چار بہنیں اس وقت غزہ میں ہیں۔
انڈپینڈنت اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ’فلسطین، خاص طور پر غزہ میں اس وقت صورت حال بہت بری ہے۔ وہاں پانی بجلی، ایندھن اور نہ ہی انٹرنیٹ ہے۔ زندگی کی بنیادی سہولیات اس وقت وہاں میسر نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ’ جیسے سب لوگ خبروں میں دیکھ رہے ہیں کہ وہاں اسرائیلیوں نے 2800 سے زیادہ لوگوں کو مار دیا ہے۔ جن میں زیادہ تر بچے، خواتین اور وہ بچے ہیں جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
’دس ہزار سے زیادہ لوگ وہاں زخمی ہیں۔ جن کے پاس کوئی طبی سہولیات نہیں ہیں۔ آخری بار میں نے اپنے خاندان سے گزشتہ روز بات کی تھی وہ بھی بین الاقوامی کال کے ذریعے۔ وہاں صورت حال اچھی نہیں اور نہ ہی فلسطینی اس وقت محفوظ ہیں۔ اس سے پہلے میں ان سے بات نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ وہاں انٹرنیٹ نہیں ہے۔
’جب انٹرنیٹ تھا تو وہ مجھے پیغام بھیجتے رہتے تھے کہ ’ہم زندہ ہیں تم فکر نہیں کرو۔‘
عبدالرحمٰن کے مطابق دس ہزار سے زیادہ لوگ وہاں زخمی ہیں جن کے پاس کوئی طبی سہولیات نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ’ ہم جب خبروں یا سوشل میڈٰیا پر دیکھتے ہیں تو فکر مند ہو جاتے ہیں کیونکہ اسرائیلی وہاں ہر جگہ بم چلا رہے ہیں۔
’کچھ روز قبل جب میری گھر بات ہوئی تو میری والدہ اور بہنیں شمالی غزہ سے جنوبی غزہ جا رہے تھے۔ کیونکہ اسرائیلیوں نے انہیں جانے کا کہا تھا۔ گھر، عمارتیں اور بہت سے خاندان اس وقت بے گھر ہیں اورکچھ خاندان اس وقت سکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔‘
عبدالرحمٰن کی طرح ہی فلسطینی شہری نورالدین بھی ہیں جو لاہور کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نور الدین نے بتایا کہ ’میں پاکستان میں طالب علم ہوں۔ ہم سب خبروں میں دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین میں حالات کچھ اچھے نہیں ہیں لیکن اگر آپ کو آزدی چاہیے تو ہرآزادی کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔
’ہمارا یقین ہے کہ قیمت جو بھی ہو ہم اپنی آزادی واپس حاصل کر کے رہیں گے۔ ہمیں فلسطین میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنا ہے، بیشک ہم ملک سے باہر ہیں۔ ہم عطیات اکٹھی کر رہے ہیں۔
’ہم نے پہلے بھی کئی بار ایسی صورت حال دیکھی ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم اس کے عادی ہو جائیں۔
’یہ کوئی نارمل صورت حال نہیں ہے۔ ہم تکلیف اٹھاتے رہیں گے جو بھی ہو کیونکہ یہ ایک اچھا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہے۔‘