نائن الیون مقدمہ سی آئی اے کو گوانتاناموبے کے راز افشا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے

ایک نئے مقدمے میں یہ انکشاف ہو سکتا ہے کہ گوانتاناموبے جیل کے اندر کیا ہو رہا تھا اور کیا یہ سی آئی اے کے مکمل ’آپریشنل کنٹرول‘ میں تھی۔

26 جنوری 2017 کو کیوبا میں واقع گوانتانامو بے امریکی فوجی جیل میں کیمپ فائیو کی باڑ کے باہر لوگ ایک گارڈ ٹاور کے پاس سے گزر رہے ہیں (اے ایف پی)

ستمبر 2006 میں امریکی فوج کا سی 17 کارگو طیارہ کیوبا میں گوانتا نامو بے پہنچا اور 14 نئے قیدیوں کو وہاں چھوڑ دیا۔

ان افراد کو اس سے قبل دنیا بھر میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ’بلیک سائٹ‘ جیلوں میں رکھا گیا تھا، جہاں بہت سوں کو امریکی قوانین کے دائرے سے باہر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان میں سے ایک عمّار البلوچی تھے، جن کا شمار ان پانچ افراد میں ہوتا ہے، جو گوانتاناموبے میں فوجی عدالت کا سامنا کر رہے ہیں اور جن پر 9/11 کے ہائی جیکروں کی مدد کرنے کا الزام ہے۔

جزیرے کی جیل پہنچنے سے قبل، البلوچی کو قید تنہائی، مرضی کے خلاف بال کاٹنے، مار پیٹ، برف کے پانی سے نہلانے جیسی حالتوں میں رکھا گیا، جس سے وہ ذہنی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہوتے۔

انہیں چھت سے جکڑے جانے اور خوراک سے محروم ہونے جیسا ظلم بھی برداشت کرنا پڑا۔

2022 میں منظر عام پر آنے والی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق ایک خاص طور پر پریشان کن واقعے میں تربیت حاصل کرنے والے تفتیش کاروں نے ’والنگ‘ نامی تکنیک میں ایک لائن بنائی اور بار بار ان کے سر کو دیوار مارا، جس سے ان کے دماغ کو نقصان پہنچا۔

جب وہ 13 دیگر افراد کے ساتھ جزیرے پر امریکی بحری اڈے پر پہنچے، تو انہیں خفیہ طریقے سے اتنے ہی پراسرار قید خانے یعنی کیمپ سیون میں منتقل کیا گیا۔

کیمپ سیون، جو 2021 میں بند ہونے سے پہلے گوانتاناموبے کا سب سے زیادہ خفیہ حصہ تھا، اتنی سخت نگرانی میں تھا کہ اس کی صحیح جگہ، ڈیزائن اور اخراجات تک خفیہ تھے۔

اس میں امریکہ کے سب سے زیادہ اہم قیدیوں کو رکھا گیا تھا، جن میں البلوچی اور ان کے چچا، 9/11 کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد بھی شامل تھے۔

ان قیدیوں کے گوانتاناموبے پہنچنے کے تقریباً دو دہائیوں بعد، ایک نئے مقدمے سے اس بارے میں مزید انکشاف ہو سکتا ہے کہ اندر کیا ہو رہا تھا اور کیا یہ سی آئی اے کے مکمل ’آپریشنل کنٹرول‘ میں تھا۔

پیر کو، امریکی سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ’کانل بمقابلہ سی آئی اے‘ کیس کو سنیں، جو یہ استدلال کرتا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسی کیمپ سیون سے اپنے تعلقات کے بارے میں ریکارڈز کی درخواست سے غلط طور پر بچنے میں کامیاب رہی، جو ریکارڈز پالیسی کے بارے میں ایک پیچیدہ قانونی جھگڑا معلوم ہوتا ہے اور جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جاری رازوں میں سے ایک کے متعلق نئی معلومات یا تفصیلات سامنے آ سکتی ہیں۔

یہ مقدمہ شروع ہوتا ہے بلوچی کے قانونی دفاع سے۔

بلوچی، جو کویت میں پیدا ہوئے اور 2003 میں پاکستان سے پکڑے گئے، پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے چچا کی درخواست پر نائن الیون کے اغوا کاروں کے لیے رقم اور سفری انتظامات کیے تھے۔

انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ یقینی طور پر نہیں جانتے کہ ان کی مدد لینے والے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں کسی جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔

2017 میں بلوچی کے وکیل جیمز جی کونل سوم نے سی آئی اے کو فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کی درخواست دی تھی، جس میں کیمپ سیون میں ان کی حراست کے وقت کے بارے میں معلومات طلب کی گئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیمپ سیون وہ جگہ ہے، جس کے حوالے سے 2014 کی سینیٹ ٹارچر رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب بلوچی وہاں پہنچے، تو وہ سی آئی اے کے کنٹرول میں تھی۔

 ایجنسی نے جواب میں تین ریکارڈ دیے، لیکن چوتھا مکمل طور پر روک دیا اور یہ واضح کرنے سے انکار کردیا کہ آیا سی آئی اے اور کیمپ سیون سے منسلک مزید کوئی ریکارڈ موجود ہے یا نہیں۔

امیریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے نہ انکار کیا گیا، نہ اقرار یعنی وہی روایتی جواب کہ ’ہم تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے‘ جسے ’گلومار‘ دفاع کہا جاتا ہے، عام فہم کے خلاف ہے کیونکہ ٹارچر رپورٹ، گوانتاناموبے فوجی کمیشن کی گواہی اور ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سب یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کیمپ سیون میں سی آئی اے کی سرگرمیاں تھیں۔

اے سی ایل یو کے ایک وکیل بریٹ میکس کافمین نے ایک بیان میں کہا کہ کیمپ سیون کے ساتھ سی آئی اے کے تعلقات کے بارے میں کافی زیادہ عوامی ریکارڈز کی موجودگی میں اس کیس میں رازداری کا دعویٰ انتہائی غیرمعقول اور مضحکہ خیز ہے۔

’سی آئی اے نے ایک بار پھر گلومار کو اس کی حد سے بڑھا دیا ہے اور عدالتوں کو ایسی واضح رازداری کے تماشے کی حمایت میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔‘

دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے سی آئی اے سے رابطہ کیا ہے اور محکمہ دفاع نے معلومات کے لیے درخواستیں انٹیلی جنس ایجنسی کو بھیج دی ہیں۔

کچھ نچلی عدالتوں نے اب تک سی آئی اے کا ساتھ دیا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ ریکارڈ کے مقدمات میں ججوں کو ایسی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جس کے بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیاں جواب دینے سے انکار کرتی ہیں یا کسی معلومات کی تصدیق یا تردید نہیں کرتیں۔

تاہم اے سی ایل یو کی دلیل ہے کہ ایپلٹ عدالتیں اس معاملے پر منقسم ہیں اور ججوں کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ اگر کوئی اشارے ہوں کہ کوئی ایجنسی معلومات تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے اور ممکنہ طور پر وہ معلومات افشا کرنے سے گریز کر رہی ہے تو وہ اسے ’نظر انداز‘ کر دیں۔

شہری حقوق کے اس گروپ کا کہنا ہے کہ سی آئی اے باقاعدگی سے گلومار دفاع کا غلط استعمال کرتی ہے اور اسے ڈرون حملوں، امریکی شہریوں کے ماورائے عدالت قتل اور کانگریس پر ممکنہ جاسوسی کے سوالات جیسے متنازع معاملات پر تحقیقات سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

گوانتانامو میں کیمپ سیون اور سی آئی اے کی سرگرمیوں کے بارے میں جو کچھ عوامی ہے، وہ بہت سے مبصرین کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

2019 میں ایک سابق کمانڈر نے نائن الیون کیس میں گواہی دی تھی کہ حراست میں لیے گئے افراد کی حفاظت ٹاسک فورس پلاٹینم نامی ایک خفیہ یونٹ کر رہا تھا۔

 اس یونٹ نے امریکی فوجی وردی پہن رکھی تھی جس میں ناموں کی بجائے فرضی نام تھے اور رینک کا کوئی نشان نہیں تھا، جس سے مبصرین کو معلوم ہوا ہے کہ وہ سی آئی اے کے ایجنٹ یا کانٹریکٹرز تھے جو خود کو فوجی ظاہر کرتے تھے۔

 (اسی سماعت کے دوران، حکومت کی طرف سے بلائے گئے ایک سابق فوجی افسر نے گواہی دی کہ انہوں نے اور ان کے فوجیوں نے قیدیوں کے پہنچنے پر انہیں تحویل میں لے لیا، جس سے اس تصویر کو مزید خراب کر دیا گیا کہ اصل میں کیمپ سیون کا کنٹرول کس کے پاس تھا۔)

یہ سوالات بھی موجود ہیں کہ کیا کیمپ سیون میں زیر حراست افراد کو نیول بیس پر پوچھ گچھ کے دوران شہری حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

گوانتاناموبے میں سی آئی اے کے تشدد کے شکار سابقہ قیدیوں سے دوبارہ تفتیش کی گئی، اس بار 2007 میں بھیجے گئے ایف بی آئی ایجنٹس کے ذریعے، اس امید میں کہ حکومت تشدد کے بغیر معلومات حاصل کر سکے تاکہ وہ بعد میں عدالت میں قابل قبول ہوں۔

دفاع کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان ایف بی آئی انٹرویوز سے حاصل کردہ شواہد بھی متاثر یا مشکوک ہیں کیونکہ قیدیوں کو بلیک سائٹس پر ان کے ماضی جیسے حالات میں رکھا گیا تھا، جن کی نگرانی ممکنہ طور پر اسی ایجنسی سی آئی اے نے کی تھی۔

قیدیوں کو شاید علم نہ ہو کہ وہ ان انٹرویوز میں تعاون سے انکار کر سکتے ہیں، یا انہیں ڈر ہو کہ انہیں دوبارہ تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔

مزید برآں، اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ایف بی آئی سی آئی اے کی جیلوں میں اصل بین الاقوامی بلیک سائٹ سے پوچھ گچھ میں ملوث تھی، جہاں تشدد کیا گیا تھا۔

ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے 2019 میں خفیہ جیلوں کے نیٹ ورک کو سینکڑوں سوالات بھیجنے کی گواہی دی تھی جہاں گوانتاناموبے لے جانے سے پہلے البلوچی جیسے مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کیمپ سیون 2021 میں بند کر دیا گیا تھا، لیکن ریکارڈز کی لڑائی، نائن الیون انجام دینے والے افراد کا پیچھا کرنے میں حکومت کے طرز عمل کے خلاف ایک بڑی قانونی جنگ کا صرف ایک محاذ ہے۔

رواں برس اگست میں بلوچی کی ایک تصویر سامنے آئی، جو ایک بلیک سائٹ کے قیدی کی پہلی عوامی طور پر جاری کردہ تصویر تھی۔

اس میں وہ برہنہ، کمزور اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے، سر منڈوائے کھڑے تھے۔

یہ تقریباً 14,000 ایسی تصاویر کے ذخیرے کا حصہ ہے، جو مبینہ طور پر حکومت کے پاس ہیں، جن میں سے زیادہ تر ابھی تک خفیہ ہیں۔

2012 کی فلم ’زیرو ڈارک تھرٹی‘ کے مناظر بلوچی پر کیے گئے تشدد سے متاثرہ ہیں اور یہ معاملہ اب بھی جاری 9/11 کے مقدمے میں ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، جہاں دفاعی وکلا طویل عرصے سے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے شواہد ناقابل قبول ہونے چاہییں۔

ان معاملات میں کسی بھی قسم کا حل ابھی دور دکھائی دیتا ہے۔ اگست میں، محکمہ دفاع نے خالد شیخ محمد اور دو دیگر افراد کے ساتھ ہونے والا ممکنہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا، اگرچہ بدھ کو اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ باقی مدعلیہان کا 9/11 کا مقدمہ شاید 2026 تک شروع نہ ہو۔

نائن الیون کے بعد کا یہ باب جو بھی شکل اختیار کرے گا اور جب بھی کرے گا، یہ واضح ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی انتہا کے دہائیوں بعد بھی بہت سے راز اب بھی پوشیدہ ہیں – اور امریکہ نے اب بھی خاموشی برقرار رکھی ہوئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ