گوانتاناموبے کے دورے کے بعد اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے اپنی جاری کی جانے والی رپورٹ میں امریکی حکومت کی طرف سے قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ اور ذلت آمیز سلوک کے تسلسل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ 20 سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی رپورٹر کو گوانتانامو کے فوجی اڈے پر دہشت گرد حملوں کے الزام میں گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد کے حراستی مرکز میں جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
21 سال قبل 11 جنوری 2002 کو کیوبا میں امریکی نیول بیس میں قائم گوانتاناموبے جیل کو سخت حفاظتی اقدامات کے تحت کھولا گیا تھا۔
مقصد یہ تھا کہ صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں گرفتار ہونے والوں کو امریکہ کے ان قانونی معیارات کی تعمیل کیے بغیر رکھا جائے کو ہر قیدی کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔
تقریباً 800 افراد میں سے جو کبھی اس حراستی مرکز میں قید تھے، اب 30 رہ گئے ہیں۔
فنونی ایلا نی الائن اقوام متحدہ کی انسانی حقوق، بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ پر اقوام متحدہ کی نئی نمائندہ خصوصی ہیں جنہوں نے فروری میں گوانتانامو میں قید 34 افراد کے ساتھ چار دن تک ملاقات اور گفتگو کی۔
ان 30 افراد میں سے جو اس وقت حراست میں ہیں، پانچ پر نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔
’ فنونی ایلا نی الائن جو کہ ایک قانون کی پروفیسر بھی ہیں، نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو اپنی 23 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا کہ ’امریکہ کو گوانتانامو میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔
بی بی سی پشتو کے مطابق اقوام متحدہ کی نمائندہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’جن لوگوں سے انہوں نے بات کی ہے انہیں غیر قانونی حراست، تشدد اور خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے جس سے ان قیدیوں کو دو دہائیوں کی نظربندی کے بعد تکلیف ہو رہی ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے گوانتاناموبے کا معائنہ کرنے کا موقع فراہم کرنے پر بائیڈن انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔
فنونی ایلا نی الائن نے کہا کہ حراستی مرکز تک رسائی کے لیے ان کی تمام درخواستیں پوری کر دی گئیں اور وہ ان تمام قیدیوں سے ملی ہیں جو وہ دیکھنا چاہتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 2001 میں امریکہ پر القاعدہ کے حملے کے بعد مشتبہ افراد کے طور پر پکڑے جانے کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک قید میں رہنے والے افراد نے جبری طور پر سیل سے نکلالے جانے، ناقص طبی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال سمیت کئی بدسلوکیوں کا سامنا کیا۔
انہوں نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو اپنے خاندان کے ساتھ تو ذاتی طور پر ملنے یا کال کرنے تک ناکافی رسائی حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی کے مطابق: ’میرے جائزے میں ان تمام طریقوں اور کوتاہیوں کا شمار بین الاقوامی قانون کے تحت جاری ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک میں ہوتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے فروری میں ایک ٹیم کے ساتھ گوانتانامو کا سفر کیا تھا۔
پیر کو ٹیم کی رپورٹ کا تعارف کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کو ابھی تک قیدیوں سے متعلق سب سے زیادہ واضح انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ازالہ کرنا ہے جن میں 2000 کی دہائی کے اوائل میں ان کی خفیہ گرفتاری اور گوانتاناموبے جیل میں منتقلی اور نائن الیون کے حملوں کے بعد بہت سے لوگوں پر امریکی آپریٹیوز کی طرف سے وسیع پیمانے پر تشدد برداشت کرنا شامل ہے۔
گوانتناموبے کی تاریخ
اگرچہ جو بائیڈن کی انتظامیہ گذشتہ 20 سالوں میں پہلی امریکی انتظامیہ ہے جس نے اقوام متحدہ کو گوانتاناموبے کا دورہ کرنے کی اجازت دی ہے لیکن اس رپورٹ کے جواب میں انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو لکھا کہ فنونی ایلا نی الائن کے نتائج ان کے اپنے ہیں اور امریکی حکومت اس رپورٹ کے قانونی مواد کے ایک اہم حصے سے متفق نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس رپورٹ کے نتائج کا تفصیلی مطالعہ کرے گی اور اس رپورٹ میں شامل سفارشات پر ضروری اقدامات کرے گی۔
صدر بش نے اپنے سیکریٹری دفاع ڈونالڈ رمزفیلڈ کو ایک ایسی مناسب جگہ تلاش کرنے کا حکم دیا تھا جہاں غیر امریکیوں کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت تک رکھا جا سکے۔
اس حکم نامے کے مطابق اگر کسی قیدی پر مقدمہ چلایا گیا تو اس کا ٹرائل فوجی ہو۔
دسمبر 2001 میں امریکی محکمہ انصاف نے پینٹاگون کو ایک نوٹ میں لکھا کہ گوانتانامو بے امریکی علاقہ نہیں ہے اس لیے قیدیوں کے مقدمات کو امریکی وفاقی عدالتوں میں نہیں لایا جا سکتا۔
گوانتاموبے کو ایک صدی قبل کیوبا سے امریکہ نے یرغمال بنایا تھا اور یہاں بنایا گیا اڈہ ابتدائی طور پر کیوبا اور ہیٹی سے امریکہ جانے والے ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
اس طرح امریکی حکام کے مطابق افغانستان میں القاعدہ اور طالبان سے تعلق کے شبے میں گرفتار کیے گئے افراد کو بھیجنے کے لیے گوانتانامو مناسب جگہ تھی۔