ٹرمپ کے پوسٹرز کے ساتھ احتجاج پر حسینہ واجد کے حامی گرفتار

پولیس کے مطابق ان مظاہرین پر امریکہ کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

ڈھاکہ میں دو نومبر 2024 کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی بے دخلی کے بعد ہندوؤں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے تحفظ کا مطالبہ کرنے والے احتجاجی مارچ میں لوگ حصہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد  کے حامیوں کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پلے کارڈز کے ساتھ احتجاج کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے اتوار کو بتایا کہ ان مظاہرین پر واشنگٹن کے ساتھ ڈھاکہ کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

ملک بھر میں طلبہ کی قیادت میں کئی ہفتوں کے خونی مظاہروں کے بعد سابق وزیراعظم شیخ حسینہ رواں سال پانچ اگست کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا فرار ہوگئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت نے چارج سنبھالا، جسے جمہوری اصلاحات کے نفاذ اور انتخابات کے انعقاد کا کام سونپا گیا ہے۔

پولیس کی جانب سے ’سازشی‘ کہلانے والے 10 مظاہرین کو ہفتے کی رات گرفتار کیا گیا تھا، جن پر امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے ساتھ ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان محمد طالب الرحمٰن نے اتوار کو کہا کہ ’ہم ان مظاہرین کے چارج کیے گئے الزامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

یہ چھوٹا سا احتجاج شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کی طرف سے اتوار کو احتجاج کی کال سے پہلے سامنے آیا، جسے حکومت نے روکنے کی پوری کوشش کی ہے۔

انقلاب کے حامی طلبہ نے ڈھاکہ کے اُسی مرکزی مقام پر جوابی احتجاج کی کال دی ہے۔

شیخ حسینہ کے درجنوں اتحادیوں کو ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا، جن پر پولیس کے کریک ڈاؤن میں ملوث ہونے کا الزام ہے، جس میں 700 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

پولیس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی شیخ حسینہ کی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں سابق وزیراعظم نے اپنے حامیوں سے اتوار کو ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر اور امریکی پرچموں کے ساتھ احتجاج کی اپیل کی ہے۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ احتجاج کرنے والے شیخ حسینہ کے حامیوں کا ٹرمپ کے پلے کارڈز اور امریکی جھنڈوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے اور پولیس کی ممکنہ کارروائی کی صورت میں انہیں امریکی اور بین الاقوامی میڈیا میں اچھالنے کا منصوبہ ہے۔

پولیس نے کہا: ’وہ امریکہ کے ساتھ بنگلہ دیش کے دوستانہ تعلقات کو خراب کرنے کی سازش کر رہے تھے۔‘

پولیس کے مطابق عوامی لیگ نے ریلی نکالنے کی اجازت نہیں مانگی تھی جب کہ محمد یونس کے پریس سیکرٹری شفیق العالم نے کہا کہ حسینہ واجد کی ’فاشسٹ پارٹی‘ کو مارچ کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔

شفیق العالم نے ایک بیان میں کہا: ’عوامی لیگ، اپنی موجودہ شکل میں ایک فاشسٹ پارٹی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جو کوئی بھی قاتل اور آمر شیخ حسینہ کے حکم کے تحت جلسے، اجتماعات یا جلوس نکالنے کی کوشش کرے گا، اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

شیخ حسینہ واجد کی پارٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت نے ان کی حکومت کے خلاف مظاہروں کی حوصلہ افزائی کی، کیوں کہ ان کی حکومت نے امریکہ کو خلیج بنگال میں سکیورٹی مقاصد کے لیے ایک جزیرہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے اس دعوے کو ’من گھرٹ‘ قرار دیا ہے۔

شیخ حسینہ واجد کی 15 سالہ طویل حکومت پر اپوزیشن کو ان کے جمہوری حقوق سے محروم کرنے اور مخالف آوازوں کو دبانے کے الزامات ہیں۔

84 سالہ محمد یونس نے امریکی انتخابات کے نتائج کے بعد کہا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پر امید ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا