اس سے پہلے کہ ہم کوپ 28 کے بارے میں حالیہ شہ سرخیوں پر نظر ڈالیں، بڑے منظر نامے کا سیاق و سباق جاننا ضروری ہے۔ سائنس ہمیں 1995 میں ہونے والی پہلی کوپ (کانفرنس آف دا پارٹی) سے پہلے ہی قطعی صراحت کے ساتھ بتا رہی ہے کہ دنیا کو روایتی ایندھن (کوئلہ، تیل اور گیس) کا استعمال ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
اب ہم ماحولیاتی ہنگامی حالت پر 28 بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کر چکے ہیں۔ 1995 میں اس کانفرنس میں نمائندوں کی تعداد 4000 سے کم تھی جو اس سال بڑھ کر 97000 ہزارسے زیادہ ہو چکی ہے۔ مقصد مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کرنا ہے۔ میرے ایسے ساتھی ہیں، جنہوں نے ہر بار کوپ میں شرکت کی۔ پھر بھی اس عرصے میں جس شرح سے ہم آب و ہوا کے مسئلے کو بدتر بنا رہے ہیں، اس میں لگاتار اضافہ ہوا ہے۔
درحقیقت صرف آنکھ سے دیکھنے پر کاربن کی اس مقدار کا کوئی قابل شناخت ثبوت نہیں ملتا، جو انسان نے دیکھی ہے کہ ماحول کی تبدیلی سے کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کاربن کے اخراج کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والی دوسرے سیارے پر موجود مخلوق یہ دیکھنے کے قابل نہیں ہو گی کہ انسان آب و ہوا کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اب ہم روایتی ایندھن کو پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے استعمال کر رہے ہیں اور کاربن بجٹ کو ہر ماہ تقریباً 1.5 فیصد کی بڑی پریشان کن شرح سے استعمال کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 درجے سیلیئس تک محدود نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سوال ہمیشہ یہ تھا کہ کیا کوپ 28 مختلف ہو سکتی ہے اور کسی طرح ایک اہم موڑ کی نشاندہی کر سکتی ہے؟
ہم میں سے بہت سے لوگوں نے خاص طور پر کم توقعات کے ساتھ حالیہ کوپ میں شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت ابوظبی نیشنل آئل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سلطان احمد الجابر کر رہے ہیں، جو 2027 تک اپنی پیداواری صلاحیت کو 40 لاکھ بیرل یومیہ سے بڑھا کر 50 لاکھ بیرل یومیہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وہ پہلے ہی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بظاہر کانفرنس کے موقعے کو استعمال کرتے ہوئے تیل کے نئے معاہدوں کو آگے بڑھا کر اپنے غیر جانبدارانہ کردار کی نفی کی۔ وہ یہ کہتے ہوئے بھی پکڑے گئے کہ وہ روایتی ایندھن نکالنے کے عمل میں کمی لانے کے حوالے سے سائنسی جواز پر یقین نہیں رکھتے۔
ان کی یہ بات ریکارڈ پر ہے۔ (تاہم بعدازاں انہوں نے اپنی بات سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ وہ اور متحدہ عرب امارات دونوں ماحولیاتی تبدیلی کے پیچھے موجود ’سائنس پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔‘)
دریں اثنا اس کوپ میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط روایتی ایندھن لابی نے شرکت کی اور گوشت کی صنعت نے اپنی موجودگی کو تین گنا بڑھا دیا، جس میں 100 وہ مندوبین شامل ہیں جو اپنے ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس طرح اندرونی حلقوں میں ہونے والی بحث تک خصوصی رسائی مل گئی۔
آخرکار کوپ 28 نے کیا دیا؟ اس کے نتیجے کو بعض لوگوں نے تاریخی لمحہ قرار دیا۔
نتیجے کے طور پر حکومتوں سے ’مطالبہ کیا گیا‘ کہ وہ 2050 تک کاربن کے اخراج میں خالص صفر تک پہنچنے کے لیے اس دہائی میں تیل، کوئلہ اور گیس کا استعمال ترک کرنے کے عمل کا آغاز کریں لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی حقیقی قاعدہ وضع نہیں کیا گیا۔ اس طرح تمام فریق اگلے چند سال تک تیل کی پیدوار بڑھاتے رہیں گے۔
روایتی ایندھن کی صنعت کے لیے صورت حال اب بھی بہتر ہے۔ وہ ہمارے آب و ہوا اور ماحول کی تباہ کن تباہی کو ایک ایسے بیانیے کے پیچھے چھپاتی ہے جو قابل اعتماد لگتا ہے، جب تک کہ آپ تفصیل میں نہ جائیں۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ فوسل ایندھن نکالنے میں تیزی اور فوری کمی لانے کا عزم ہے۔
قابل تجدید توانائی کو وسعت دینے کی خواہش ایک آڑ ہے کیوں کہ جب تک قابل تجدید توانائی روایتی ایندھن کی جگہ نہیں لیتی اور یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب فوسل ایندھن کو محدود کر دیا جائے، ہمیں اس آڑ کی دوسری طرف کاربن کے اخراج میں کمی کا فائدہ نظر نہیں آئے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
توانائی کی صلاحیت کی بہتری کی شرح کو دوگنا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ توانائی کے نظام کی حرکیات ایسی ہیں کہ اصل میں وہ توانائی کی کل کھپت میں اضافے پر اثرانداز ہوتی ہیں، جب تک کہ کہیں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ مثال کے طور پر فوسل ایندھن نکالنے میں، لیکن ایسا نہیں ہے۔
کوپ میں استعمال کی گئی زبان ہم میں سے کچھ لوگوں کو سکون دینے کے معاملے کو کافی تسلی بخش لگتی ہے لیکن اس میں اشارے موجود ہیں کہ کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ اس بیان میں صرف روایتی ایندھن پر’غیر موثر‘ سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بیان میں (زیادہ صاف توانائی کے استعمال) تک عارضی طور پر روایتی ایندھن کا استعمال جاری رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور ایسا کرنے سے نئے گیس فیلڈز کی تلاش کے دروازے کھل جاتے ہیں، جو بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مشورے کی واضح مخالفت ہے۔
مجموعی طور پر حالیہ کوپ کی قراردادوں کا فوسل ایندھن نکالنے کی شرح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، تاہم وہ آب و ہوا کے حوالے سے ہنگامی صورت حال پر انسانیت کو سلائے رکھنے کے لیے استعمال ہوں گی۔ کوپ کے سلسلے نے ماحول کی تباہی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے دنیا کی زیادہ تر کوششوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اس نے فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
اس کی ایک اہم مثال لاس اینڈ ڈیمج فنڈ ہے جو ترقی پذیر دنیا کے لیے متبادل توانائی کی طرف منتقلی کے قابل عمل راستے کو یقینی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ عملی قدم اٹھانے کے لیے ضروری رقم کے مقابلے میں صرف 70 کروڑ ڈالر کی رقم کچھ بھی نہیں۔
جو کوئی بھی اس صورت حال کو پیش رفت کے طور پر پیش کر رہا ہے، اس کا انحصار اپنے مخاطب لوگوں کے کروڑوں اور اربوں کے درمیان ٹھیک طریقے سے فرق کرنے میں ناکامی پر ہے۔ مختص رقم کی حیثیت ان سینکڑوں ارب ڈالر کے مقابلے میں پانی کے ایک قطرے کے برابر ہے جن کی حقیقت میں ضرورت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کوپ 28 کو جن چار اہم نکات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی لیکن وہ قطعی طور پر ناکام رہی ان پانچ نکات میں فوسل ایندھن کی پیدوار اور استعمال کی شرح میں تیزی سے کمی۔ عالمی سطح پر توانائی کی کھپت میں کمی تاکہ کم مقدار فوسل ایندھن کی ضرورت ہو اور قابل تجدید توانائی فوسل ایندھن کی جگہ لے سکے نہ کہ محض روایتی ایندھن کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال بھی جاری رہے۔ لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا فنڈ ایسے پیمانے پر ہے جو ترقی پذیر دنیا کی متبادل توانائی کی طرف منتقلی کے عمل کی ضروریات کے مطابق ہو، میتھین گیس کے اخراج میں تیزی سے کمی خاص طور پر زراعت کے شعبے میں۔
کوپ 28 انتہائی مایوس کن رہی اور میں کوپ 29 کے معاملے میں بھی پرامید نہیں ہوں۔
مائیک برنرز لی ماحولیاتی کنسلٹنٹ اور لنکاسٹر یونیورسٹی میں سماجی مستقبل کے پروفیسر ہیں۔
© The Independent