افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے لاتعلقی کے اعلان کے بعد برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں جمعے کو افغانستان کا سفارت خانہ بند کر دیا گیا جبکہ سفارتی عملے کو برطرف کر دیا گیا۔
اے ایف پی رپورٹر نے قونصل سیکشن کے دروازے پر نوٹس دیکھا جس پر لکھا تھا کہ ’جمہوری افغانستان کا سفارت خانہ بند ہے۔‘
دروازے پردستک کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم سفارت خانے کی عمارت پر ملک کا پرچم اب بھی لہرا رہا ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ برطانیہ میں افغان سفیر زلمی رسول نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا تھا کہ ’میزبان ملک کی باضابطہ درخواست‘ پر سفارت خانہ 27 ستمبر کو بند کر دیا جائے گا۔
برطانوی وزارت خارجہ نے سفارت خانے کی بندش میں ملوث ہونے کی تردید کی۔
برطانیہ کے فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) نے اس بات کی تردید کی ہے کہ افغان سفارت خانے کی بندش میں اس کا ہاتھ ہے۔
ادارے کے ترجمان نے کہا: ’یہ فیصلہ برطانوی حکومت نے نہیں کیا۔ ریاست افغانستان نے لندن میں افغان سفارت خانہ بند کرنے اور اپنے عملے کو برخواست کرنے کا فیصلہ کیا۔
’ہم افغانستان کے لوگوں کی مدد جاری رکھیں گے اور ان لوگوں کو انسانی ہمدردی بنیاد امداد فراہم کریں گے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘
ایف سی ڈی او نے یہ نہیں بتایا کہ آیا لندن میں نئے افغان سفیر کو قبول کیا جائے گا یا نہیں۔
برطانیہ طالبان حکومت کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کرتا اور اس کے افغانستان کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
لیکن امریکہ اور یورپی یونین کے مطابق لندن تسلیم کرتا ہے کہ افغانستان کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ عملی طور پر رابطے کے سوا ’کوئی متبادل راستہ نہیں۔‘
اس وقت برطانیہ کا افغان مشن دوحہ میں قائم ہے۔
افغان سفارت خانے کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا قونصلر سیکشن 20 ستمبر کو بند ہوا۔
زلمی رسول نے جمعے کو ایکس پر دوبارہ پوسٹ کی جس میں برطانیہ میں جرمن سفیر نے کہا کہ کئی سال تک اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ کام کرنا ’خوشی کی بات‘ ہے۔ انہوں نے طالبان کی حکومت میں ’خواتین اور لڑکیوں کے افسوسناک حالات‘ کی مذمت کی۔
گذشتہ تین سال میں، طالبان نے سخت گیر اسلامی نظام نافذ کیا اور خواتین کو آہستہ آہستہ عوامی مقامات سے دور کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے باوجود غیر ملکی سفارت خانے اس افغان سفارتی عملے کے ساتھ کام کرتے رہے جو سابقہ افغان حکومت کے وفادار تھے۔
ان میں فرانس، بیلجیم، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، کینیڈا اور آسٹریلیا میں افغان سفارت خانے شامل ہیں۔
جولائی کے آخر میں طالبان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ کابل کے نئے حکام کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے والے مشنوں کی طرف سے جاری کردہ پاسپورٹ اور ویزے کے بارے میں ’کوئی ذمہ داری‘ قبول نہیں کرتی۔
طالبان حکومت نے کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم افغان شہریوں کو موجودہ افغانستان حکومت کے تحت کام کرنے والے مشنوں کے ساتھ ہی رابطہ کرنا چاہیے۔
طالبان حکام کو کسی بھی ملک نے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن پاکستان، چین اور روس نے طالبان حکومت کے حکم پر کام کرنے والے افغان سفارت خانوں کی میزبانی کی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق برطانیہ میں افغان سفارت کاروں کو مبینہ طور پر کہا گیا کہ وہ یا تو برطانیہ چھوڑ دیں یا سیاسی پناہ کے لیے درخواست دیں۔