گلگلت بلتستان کے ضلع استور کی انتظامیہ نے بدھ کو بتایا ہے کہ علاقے میں گذشتہ روز باراتیوں کی بس کو پیش آنے والے حادثے میں 27 افراد میں سے اب تک 14 لاشوں کو دریائے سندھ سے نکال لیا گیا ہے، جب کہ حادثے میں صرف دلہن زندہ بچ پائی ہے۔
ڈپٹی کمشنر استور محمد طارق کے مطابق کوسٹر میں ڈرائیور سمیت 27 افراد سوار تھے، جو حادثے سے پہلے کسی چیز سے ٹکرا کر تھیلچی پل سے نیچے دریا میں گر گئی تھی۔
محمد طارق نے میڈیا کو حادثے کے تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ حادثے کے بعد گاڑی پانی میں مکمل ڈوب گئی تھی اور باہر سے نظر نہیں آ رہی تھی۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق: ’چونکہ تھریچر پل ضلع دیامر اور استور کی سرحد پر واقع ہے، لہذا ہم نے دونوں اضلاع کے ریسکیو حکام کو مطلع کر کے انہیں جائے وقوعہ پر روانہ کردیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ریسکیو آپریشن کے ایک گھنٹے بعد لاشوں کو دریا سے نکالنا شروع کیا گیا اور اسی دوران سب سے پہلے دلہن جو ڈوبنے سے پہلے پانی کی سطح پر آگئی تھی، کو مقامی افراد نے دریا سے نکال کر ہسپتال منتقل کر دیا۔‘
ڈپٹی کمشنر کے مطابق آخری اطلاعات تک دلہن کو معمولی زخم آئے تھے، جن کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور وہ گلگلت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’اب تک ہم نے 14 لاشیں نکال لی ہیں اور گاڑی کو بھی نکال لیا گیا ہے، جس میں کوئی لاش موجود نہیں ہے۔ مسافر گاڑی سے نکل کر دریا میں ڈوب کر نیچے بہہ گئے ہیں۔‘
محمد طارق نے بتایا کہ دریا کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر مقامی لوگوں کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ وہ لاپتہ افراد پر نظر رکھیں اور ہمیں اطلاع دیں تاکہ تمام لاشوں کو برآمد کیا جا سکے۔
دلہن کے بچ جانے کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر استور کے ترجمان دلداد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حادثے کے فوراً بعد ایک خاتون زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کی گئی تھی، جن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دلہن ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خاتون کو پہلے استور ہسپتال اور بعدازاں گلگت ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلدار علی کے مطابق: ’بس حادثے میں صرف یہی دلہن زخمی تھیں، جو بچ گئیں جبکہ کئی مسافر لاپتہ ہیں، جن کی تلاش جاری ہے۔‘
دیامر کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) شیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حادثہ تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے کوسٹر پل کے جنگلے کے ساتھ ٹکرا کر بے قابو ہوئی اور پل پر چڑھنے کے بعد 15 گز پل سے رگڑ کھاتے ہوئے دریا میں جا گری۔
ایس ایس پی شیر خان نے بتایا کہ دلہن کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا، جس میں انہوں نے تصدیق کی ہے کہ واقعہ تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آیا تھا۔
گلگلت بلتستان کے ریسکیو 1122 کے ضلعی ایمرجنسی آفیسر طاہر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں کچھ چیلنجز ضرور ہیں لیکن ہماری کوشش ہے کہ باقی لاپتہ مسافروں کو تلاش کیا جا سکے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سب سے بڑا چیلنج کم درجہ حرارت کا ہے کیونکہ سردی ہے اور پانی میں سرچ آپریشن کرنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دریا کا تیز بہاؤ اور گدلا پانی بھی مشکلات کا باعث ہے، جس سے کیمرے سے مدد لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔