پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار چیمپیئنز ٹرافی کے پاکستان میں انعقاد اور انڈیا کے شرکت سے انکار پر متضاد رائے رکھتے ہیں۔ ایک پاکستانی تجزیہ کار کے مطابق پاکستان آنے سے انکار پر نقصان کی ذمہ داری انڈیا پر عائد کی جانی چاہیے جبکہ انڈین صحافی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) 19 فروری سے نو مارچ 2025 تک پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کی تیاریاں کر رہا ہے لیکن انڈین ٹیم کے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکار کے بعد تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔
انڈین بورڈ آف کرکٹ کنٹرول (بی سی سی آئی) کے انکار پر اگرچہ پی سی بی نے سوالات اٹھاتے ہوئے کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی سے اس معاملے پر وضاحت مانگی ہے لیکن اس بڑے ایونٹ میں روایتی حریف ٹیموں کے مقابلے نہ ہونے پر مالی نقصان کا بھی خدشہ ہے کیونکہ شائقینِ کرکٹ کو سالوں انتظار رہتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں کب مد مقابل ہوں گی۔
بی سی سی آئی کے اس رویے پر دنیائے کرکٹ میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ دونوں طرف سے سخت موقف اپنایا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے بھی میڈیا سے گفتگو کے دوران دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انڈین ٹیم کو اس ایونٹ میں شرکت کا مشورہ دیا ہے۔
دوسری جانب پی سی بی نے بھی اس حوالے سے سخت موقف اپناتے ہوئے آئی سی سی سے انڈین ٹیم نہ آنے کی ٹھوس وجوہات پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انڈیا کا رویہ شروع سے ہی پاکستان کے ساتھ تعصب پر مبنی ہے۔ ایشین کپ ہو، چیمپیئنز ٹرافی یا ورلڈ کپ ہر بار وہ اس پر سیاست چمکاتے ہیں۔‘
خالد محمود کے بقول: ’آئی سی سی کی آمدن سے ہی کرکٹ چلتی ہے۔ ہر ایونٹ میں جتنی آمدن تمام میچوں سے ہوتی ہے اس میں 50 فیصد صرف پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچوں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس آمدن سے آئی سی سی مختلف کرکٹ بورڈز کی مدد کرتا ہے، لیکن اس قسم کی مجبوریوں کو انڈیا نے کبھی نہیں مانا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہر بار وہ ایسے مسائل پیدا کرتے ہیں جن سے پاکستان کی شہرت کو نقصان پہنچے۔ کھیل میں سیاست کی نفی ہونی چاہیے اور آئی سی سی اس بارے میں سخت ایکشن لے۔ اس معاملے پر فوری اجلاس بلانا چاہیے اور انڈیا کو بلاوجہ چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے پاکستان آنے سے انکار پر نقصان کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہیے۔‘
سابق چیئرمین پی سی بی کے مطابق: ’دنیا بھر کے نشریاتی ادارے اور کئی ڈیجیٹل اداروں کی آمدن کا انحصار بھی ہر ایونٹ میں پاکستان اور انڈیا کے میچوں پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شائقین کی سٹیڈیمز میں آمد بھی دیگر میچوں سے زیادہ ہوتی ہے، لہذا انڈیا کے اس رویے سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے متعلقہ شعبوں کو اربوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔‘
سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ رویے میں لچک دکھائی، ہماری ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے انڈیا گئی اور توقع یہی تھی کہ وہ بھی پاکستان آئیں گے، لیکن وہ اب انکار کر رہے ہیں حالانکہ اس میں کوئی مصلحت نہیں ہے۔‘
دوسری جانب انڈین سپورٹس صحافی وکرانت گپتا نے سما ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بے شک انڈیا کے چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت نہ کرنے پر آئی سی سی اور پی سی بی کو کافی مالی نقصان ہوسکتا ہے لیکن دونوں ملکوں کے بورڈز کو یہ معاملہ افہام و تفہیم سے نمٹانا ہوگا۔ ایونٹ پاکستان کی میزبانی میں ہونا ہے اس لیے پی سی بی کو دھکمی آمیز رویے کی بجائے حالات بہتر کرنے کی طرف جانا چاہیے۔‘
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے گذشتہ ہفتے پی سی بی کو مطلع کیا تھا کہ انڈیا آٹھ ٹیموں کے اس ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان کا دورہ نہیں کرے گا، جس سے اس ایونٹ کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
پاکستان پہلے ہی ایک ہائبرڈ ماڈل کو مسترد کر چکا ہے جس کے تحت انڈیا کو اپنے میچ دبئی جیسے کسی غیر جانبدار مقامات پر کھیلنے کی تجویز دی گئی تھی۔
پاکستانی میڈیا نے منگل کو رپورٹ کیا تھا کہ پی سی بی انڈیا کے دورے سے انکار کی سکیورٹی وجوہات کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔
نیوزی لینڈ نے گذشتہ دو سالوں میں تین بار پاکستان کا دورہ کیا جب کہ اسی عرصے میں انگلینڈ نے دو بار اور آسٹریلیا کی ٹیم ایک بار پاکستان آ چکی ہے۔
اس کے علاوہ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر بھی اکتوبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آچکے ہیں اور جاتے ہوئے انہوں نے شرکت پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا۔
چیمپیئنز ٹرافی اگلے سال 19 فروری سے 9 مارچ تک تین مقامات لاہور، راولپنڈی اور کراچی میں کھیلی جانی ہے، لیکن آئی سی سی نے اس ہفتے حتمی شیڈول کے اعلان کو ملتوی کر دیا ہے، جسے پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی نے مایوس کن قرار دیا ہے۔
محسن نقوی، جو ملک کے وزیر داخلہ بھی ہیں، نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’تقریباً ہر ملک چاہتا ہے کہ ٹورنامنٹ پاکستان میں کھیلا جائے اور اگر وہ (انڈیا) نہیں آئے تو یہ مایوس کن ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا: ’میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو اسے سیاسی معاملہ بنانا چاہیے۔ ہم ہر ٹیم کو جتنی سہولتیں دے سکتے ہیں، دیں گے۔‘
محسن نقوی نے مزید کہا کہ انڈیا کے فیصلے کے ردعمل میں پاکستان انڈیا میں ہونے والے ہر ایونٹ سے دستبردار ہونے پر غور کرے گا۔
انڈیا اگلے سال خواتین کے ون ڈے ورلڈ کپ اور ایشیا کپ کی میزبانی کرنے والا ہے جب کہ وہ 2026 میں سری لنکا کے ساتھ ٹی 20 ورلڈ کپ کا بھی مشترکہ میزبان ہوگا۔