تصور کریں کہ فائن لیگ پاکستان میں ہے، لانگ آف انڈیا میں۔ مڈ وکٹ پاکستان میں اور ڈیپ کور انڈیا میں ہے۔ آدھا سٹیڈیم پاکستان میں ہے اور آدھا انڈیا میں۔ پاکستانی تماشائی پاکستانی سرحد کے اندر بیٹھے میچ دیکھ رہے ہیں، انڈین تماشائی اپنی طرف۔ نہ ویزے کا جھگڑا ہے، نہ سکیورٹی کا کوئی مسئلہ۔
اس سٹیڈیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چیمپیئنز ٹرافی کے لیے انڈین کرکٹ بورڈ پاکستان آنے سے انکاری ہے، اس کے جواب میں پاکستان بھی آئندہ انڈیا جانے سے انکار کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو نہ صرف پاکستان اور انڈیا بلکہ دنیا بھر کی کرکٹ کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا کیوں کہ اس وقت سپورٹس کی دنیا میں جتنے جذبہ و جنون سے ان دو ملکوں کے میچ دیکھے جاتے ہیں، اس کی دنیا کے کسی اور کھیل میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہم ایک نئی تجویز لے کر آئے ہیں جس سے انڈیا کے پاکستان آنے یا پاکستان کے انڈیا جانے کا مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔
سننے میں عجیب لگے گا، مگر ذرا غور کریں۔ یہ وہی واہگہ بارڈر ہے جہاں روزانہ پرچم اتارنے کی تقریب ہوتی ہے، جہاں دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوتے ہیں اور دونوں طرف کے ہزاروں تماشائی دیوانہ وار تالیاں پیٹتے ہیں، سیٹیاں بجاتے ہیں، بکرے بلاتے ہیں۔
سوچیں کہ اگر اسی واہگہ سرحد کی لکیر کے عین بیچوں بیچ سٹیڈیم بنا دیا جائے تو یہ سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انڈین تماشائی اپنی طرف سے آ کر میچ دیکھ جائیں، پاکستانی تماشائی اپنی طرف۔ بیچ میں بےشک اونچا جنگلہ بنا دیں۔ اسی طرح انڈین ٹیم کا پویلین انڈین سرحد کے اندر ہو، پاکستانی ٹیم کا پاکستان کے اندر۔
اور سکیورٹی؟ بھئی، یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ جب دونوں ممالک روزانہ کی بنیاد پر اپنی افواج کو آمنے سامنے لا کر تقریب کرتے ہیں، تو کیوں نہ یہ افواج اس کرکٹ گراؤنڈ کی سکیورٹی بھی سنبھالیں؟ ایک طرف پاکستانی رینجرز کھڑے ہوں گے، دوسری طرف انڈین بارڈر سکیورٹی فورس۔ دونوں اپنی بندوقیں کاندھے پر رکھ کر کھڑے ہوں گے، لیکن اس بار وہ بندوقیں جنگ کے لیے نہیں، امن کی ضمانت کے طور پر ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ میدان صرف کھیل کا میدان نہیں ہو گا، بلکہ ایک امن کی علامت بنے گا۔ جب میچ شروع ہو گا تو دونوں ممالک کے قومی ترانے ایک ساتھ بجیں گے۔ پاکستانی تماشائی ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائیں گے اور انڈین تماشائی ’جے ہند!‘ جب کوئی کھلاڑی چھکا مارے گا تو ساری سرحد سے ایک ہی آواز آئے گی: ’واہ واہگہ!‘
یہ میدان انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے لیے ایک نیوٹرل وینیو ہو گا، جہاں کوئی نہیں کہے گا کہ ہوم گراؤنڈ کا فائدہ ملا۔ یہ میدان نہ صرف دونوں ٹیموں کے لیے، بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کے لیے ایک مثال ہو گا کہ کیسے کھیل سرحدوں کو مٹا سکتا ہے۔
یہ تماشائیوں کے لیے ایک خواب جیسا ہو گا، مگر حقیقت بننے کے لیے ہمیں بس ہمت کی ضرورت ہے۔
اب کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ سب محض ایک خیالی پلاؤ ہے، ایک یوٹوپیا۔ مگر خواب ہی وہ چیز ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے کی طاقت دیتے ہیں۔ سوچیں، اگر یہ گراؤنڈ بن گیا تو کیا ہو گا؟ دنیا بھر کے میڈیا میں اس کا چرچا ہو گا۔ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کی بات کریں تو ہمیشہ تناؤ کی خبریں چھائی رہتی ہیں، مگر اس میدان کی خبر ایک مثبت کہانی بنے گی۔ لوگ دیکھیں گے کہ کیسے دو دشمن ملک اپنے اختلافات بھلا کر کھیل کے لیے ایک ہو سکتے ہیں۔
یہ میدان دونوں ملکوں کے لیے معاشی فائدہ بھی لے کر آئے گا۔ سیاح اس گراؤنڈ کو دیکھنے کے لیے آئیں گے، ٹوررزم بڑھے گا۔ کرکٹ کے فینز کے لیے یہ میدان زیارت کی جگہ بن جائے گا۔ ہر کوئی یہاں آ کر اپنی پسندیدہ ٹیم کے میچ دیکھنے کی خواہش کرے گا۔ یہ میدان نہ صرف کھیل کے لیے، بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے بیچ تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھی ایک موقع ہو گا۔
سوچیں، جب یہاں انڈیا اور پاکستان کا میچ ہو گا تو دونوں طرف کے تماشائی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ پاکستانی تماشائی انڈین کھلاڑی کے چھکے پر تالیاں بجائیں اور کچھ انڈین تماشائی پاکستانی بولر کی وکٹ لینے پر داد دیں۔ یہ وہ لمحہ ہو گا جب سرحد کی حقیقت کچھ دیر کے لیے ماند پڑ جائے گی اور دونوں ملکوں کے عوام ایک ساتھ، ایک جذبے کے ساتھ، کرکٹ کے کھیل کا لطف اٹھائیں گے۔
یہ سب کچھ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنی انا چھوڑنی ہو گی اور سکیورٹی اداروں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہو گا۔ مگر کیا یہ ناممکن ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کرکٹ کھیل کے طور پر رہے، نہ کہ سیاست کا ہتھیار بنے، تو ہمیں یہ قدم اٹھانا ہی ہو گا۔
آخر میں، اگر یہ گراؤنڈ بن جاتا ہے تو یہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ دنیا اس میدان کو دیکھ کر کہے گی کہ انڈیا اور پاکستان کے بیچ سرحد تو ہے، مگر کرکٹ کے میدان میں ہم سب ایک ہیں۔
اس میدان پر جب ایک گیند سرحد پار کرے گی، تو یہ گیند نہیں ہو گی، یہ امن کا پیغام ہو گا۔ یہ وہ لمحہ ہو گا جب دونوں ملکوں کے عوام محسوس کریں گے کہ شاید، بس شاید، کھیل کے میدان سے شروع ہونے والی یہ امن کی راہ، ایک دن ہمیں سیاست کے میدان میں بھی کچھ بدلنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔
تو کیا آپ تیار ہیں اس نئی پچ پر کھیلنے کے لیے؟