ہمیں بچپن میں ایک کہاوت بار بار سنائی جاتی تھی کہ کھاؤ من بھاتا اور پہنو جگ بھاتا، یعنی کھانا اپنی مرضی کا اور کپڑے وہ پہننا جو دوسرے بتائیں کہ آپ کو سجتے ہیں۔
باتیں دونوں غلط ہیں لیکن ابھی دوسری والی پہ فوکس رکھتے ہیں۔
کیوں پہنو جگ بھاتا؟
آپ نے کسی پارٹی میں جانا ہے، ادھر لوگوں سے ملنا ہے، بات چیت کرنی ہے، اٹھنا بیٹھنا ہے، تھوڑا سا کچھ کھانا بھی ہے لیکن آپ نے کچھ ایسا پہن لیا کہ جس میں حرکت کرنا بھی مشکل ہو ۔۔۔ ایسا کیوں ہوا؟
کیوں کہ آپ کو بتایا گیا ہے کہ اچھی فٹنگ میں آپ نے سمارٹ اور خوبصورت دکھنا ہے اس لیے جو مرضی ہو جائے پارٹی کا مطلب ہے وہ لباس جو اپنی سلائی، فٹنگ اور اکڑاؤ کی وجہ سے آپ کو لکڑی کی طرح سیدھا رکھے، یا پھر وہ کپڑے کہ جن میں سانس لینا بھی مشکل ہو اور جنہیں گھر آ کے آپ اتاریں اور دل کرے کہ گھما کر دور پھینکیں۔
لباس آرام دہ ہے، آپ کی طبیعت کا ہے، مرضی سے پہنا ہے، خود آئینہ دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے تو آپ میں وہ اعتماد آتا ہے جو لوگوں میں گھلنے ملنے کے لیے ضروری ہے۔
جب پہلا قدم ہی غلط اٹھا لیا تو آگے کوئی بہت بڑا فنکار ہو گا جو اسے نبھا جائے ورنہ لوگوں میں پاؤں رکھتے ہی سب سے پہلے خود کو اپنے کپڑوں کے ٹھیک ہونے کی ٹینشن شروع ہو جائے گی۔
مہنگائی بہت زیادہ ہو چکی ہے، عام ترین پارٹی ویئر اتنے پیسوں میں آتا ہے کہ ہم جیسے لوگ اسے پہن کے کھانے پینے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر واپس آ کر دوسری شفٹ لگائی جاتی ہے تاکہ اس تکلف کی مار سے بچا جا سکے جس کی وجہ سے بھوکے پیٹ آنا پڑا۔
کیا صاف ستھرے استری شدہ عام کپڑے پہن کر کسی فنکشن میں نہیں جایا سکتا؟ کیا دو تین جوڑوں کو صرف کسی فنکشن کے لیے الگ سے نہیں رکھا جا سکتا؟ ایسے کپڑے جو آرام دہ ہوں اور اپنی جیب کے مطابق ہوں؟
سادگی وغیرہ کا درس نہیں دے رہا، خود میری الماری میں کئی ایسے کوٹ پتلون موجود ہیں جو پوری عمر کا وقت ملائیں تو شاید تین گھنٹے پہنے ہوں گے، وہ اس سے زیادہ پہنے ہی نہیں جا سکتے۔
تب میرا دور جہالت تھا، یہ سمجھ لیجے۔ دماغ پر فلموں والے سمارٹ کرداروں اور کپڑوں پہ لیکچر دینے والے گرو لوگ کا سایہ ہوتا تھا، اور زندگی، وہ ایسے تھی جیسے کسی جنگلی جانور کو چھ ضرب چھ کے پنجرے میں بند کیا ہوا ہو۔
سوٹ پہنا ہے تو ٹائی ضرور لگائیں، ٹائی پہنی ہے تو گلا گھونٹ لیں، سب سے اوپر والا بٹن ضرور لگائیں، آستین آدھے بازو کی نہ ہو، پتلون کا پائنچہ زیادہ نیچے یا اوپر نہ ہو، پائنچے کی چوڑائی اتنی ہو، موزے ایسے ہوں، جوتے ویسے ہوں ۔۔۔ یہ سب چیزیں کیوں کروں؟
اس لیے کہ دوسروں کو اچھی لگ رہی ہیں؟ دوسروں کو ایک نارمل فٹنگ کا سوٹ، جس کے اندر بینڈ گول گلے والی قمیص ہو، کوئی ٹائی نہ ہو، موزے نہ ہوں، آرام دہ کالے جوتے ہوں، یہ آخر اچھا کیوں نہیں لگ سکتا؟
دفتری مجبوری ہے تب بھی کوٹ اتار کر آستینیں چڑھانے سے تو کوئی کبھی منع نہیں کرتا، پھر کیوں انسان اتنا جکڑا یا کسا ہوا رہے؟
بڑی مشکل سے پچھلے چار پانچ سال میں شلوار قمیض دوبارہ پارٹی ویئر کا رتبہ حاصل کر پائی ہے لیکن اس کے ساتھ بھی الگ رولے ہیں، اچھا بھلا سوٹ ہے، موسم گرمی کا چل رہا ہے، آپ نے کسی وی آئی پی جگہ جانا ہے تو فوراً واسکٹ چڑھا لیں گے۔
وہ پہن کے اب پسینے چھوٹ رہے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ زبردستی اسے لادا جائے، اگر آپ سکون میں ہیں تو بھائی یہ بوجھ گھر چھوڑ کے جائیں، سامنے والا واسکٹ نہیں آپ کا چہرہ دیکھے گا جو خواہ مخواہ اوازاری کا شکار ہو گا، کندھوں کے نیچے سے آدھی آستین پسینے میں تر ہو گی اور بات، ایسے میں بات کتنی پرسکونیوں والی کی جا سکتی ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جوتے ایسی چیز ہیں جہاں دنیا جہان کی بے زاری کا جنم ہوتا ہے۔ ہمیں سکھایا گیا کہ سخت لیدر سول والے جوتے خوبصورت لگتے ہیں ۔۔۔ بھائی وہ ایک گھنٹے کے لیے ہوتے ہیں، جس نے دن بھر چلنا ہے وہ کیوں پہنے آخر چار قسم کے لیدر جوتے؟
ربر سول والا صاف ستھرا مناسب رینج کا جوتا، جس کے اندر ایکسٹرا فوم رکھوایا ہو، مارکیٹ میں عزت کا درجہ کیوں نہیں پا سکتا؟ پشاوری چپل تک آپ ایسی پہنتے ہیں جو بفضل خدا فرش جتنی سخت ہوتی ہے، اس میں جوگر قسم کا آرام دہ سول آج تک کیوں نہیں آ سکا سوائے ایک آدھے برانڈ کے؟
جوتے، بنیان اور انڈروئیر آرام دہ ہونے کا اطمینان آپ کے چہرے پہ نظر آئے گا، ایک الگ سکون ہو گا، آزما کر دیکھ لیں۔
جینڈر نیوٹرل تحریر لکھنے کا خیال کون نہیں رکھتا؟ خواتین کے یہاں اس سے کئی گنا زیادہ پیچیدہ معاملات ہیں لباس کے، لیکن وہ ڈیپارٹمنٹ بالکل الگ ہے، اس میں باریکیاں اتنی ہیں کہ مذہب، قانون (ڈریس کوڈ) یا فضول خرچی، ان تین حوالوں کے علاوہ کوئی چوتھی بات مرد کو سوجھتی نہیں ۔۔۔
وہ چوتھی چیز جمالیات کا معاملہ ہے، جب تک میں عورت نہیں ہو جاتا، رائے دے سکتا ہوں لیکن کسی تجربے کے بغیر ایسا کرنا شاید نری حماقت ہو۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ ڈریس ڈیزائنر علیحدہ ہوتا ہے، گرومنگ انسٹرکٹر بالکل الگ چیز ہے، فیس بک پہ چلتے پھرتے آپ جو کچھ دیکھتے ہیں اسے دماغ پہ طاری نہ کریں۔
پرسنیلٹی تب بنے گی جب اپنی مرضی کی چیز آپ پہنیں گے اور اس میں آرام سے اٹھنے بیٹھنے کے قابل ہوں گے، کسی کو دیکھ کر، سن کے، زبردستی میں جو چیز خود پر مسلط کریں گے، یقین کریں وہ پوری زندگی بے آرامی کے علاوہ کچھ نہیں دے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔