کوکو کا ایک کپ ذہنی دباؤ کے اثرات سے بچا سکتا ہے: تحقیق

نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کوکو کا ایک کپ آپ کو ذہنی دباؤ کے دوران چکنائی والی غذاؤں کے منفی اثرات سے بچا سکتا ہے۔

کوکو چاکلیٹ کا بنیادی جز ہے اور فلیوانولز سے بھرپور ہوتا ہے (پکسا بے)

نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کوکو کا ایک کپ آپ کو ذہنی دباؤ کے دوران چکنائی والی غذاؤں کے منفی اثرات سے بچا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ ذہنی دباؤ میں جو غذائیں کھاتے ہیں وہ دل کی صحت پر اس تناؤ کے اثرات کو متاثر کر سکتی ہیں۔

لیکن ایک چھوٹی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوکو، جو چاکلیٹ کا بنیادی جز ہے اور فلیوانولز سے بھرپور ہوتا ہے، ایک چکنی غذا کے ساتھ پینے سے اس خوراک کے جسم پر کچھ اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

فلیونول کچھ کھانوں اور مشروبات میں پائے جانے والے مرکبات ہیں، جیسے سیب اور چائے ، اور سمجھا جاتا ہے کہ ان کے مختلف فوائد ہیں، بشمول بلڈ پریشر کو منظم کرنے اور دل کی صحت کی حفاظت کے لیے اچھا ہونا۔

جو لوگ ذہنی دباؤ کی حالت میں یا تیزی اور آسانی کی وجہ سے چربی سے بھرپور اشیا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے لیے ایک کپ کم سے کم پراسیس شدہ کوکو یا سبز چائے شامل کرنا ان کی صحت کے لیے واقعی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

برمنگھم یونیورسٹی میں نیوٹریشنل سائنس کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کیٹرینا رینڈیرو کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ جب لوگ سٹریس کا شکار ہوتے ہیں تو وہ زیادہ چربی والی غذاؤں کی طرف راغب ہونے کا رحجان رکھتے ہیں۔‘

’ہمیں نے پہلے دیکھا ہے کہ چربی والا کھانا جسم کے خون کی نالیوں کے سٹریس کے بعد دوبارہ نارمل حالت میں واپس آنے کو متاثر کرسکتا ہے۔

’اس مطالعے میں، ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا چربی والے کھانے میں ہائی فلیونول کھانا شامل کرنے سے جسم میں ذہنی دباؤ کے منفی اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔‘

ایک پچھلی تحقیق میں برمنگھم کے محققین نے پایا کہ زیادہ چکنائی والے کھانے خون کی شریانوں کے افعال اور دماغ تک آکسیجن کی فراہمی پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں، جبکہ فلاوانولز – جو کوکو اور سبز چائے میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں – روزمرہ کے سٹریس کے دوران اس عمل کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف برمنگھم میں نیوٹریشنل سائنس کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کیٹرینا رینڈیرو نے کہا، ’یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ فلیوانولز سے بھرپور کھانے یا مشروبات کا استعمال ایک ایسی حکمت عملی ہو سکتی ہے جو غیر صحت بخش خوراک کے شریانوں کے ناظام پر اثرات کم کر سکتی ہے۔

’یہ ہمیں سٹریس کے دوران کھانے اور پینے کے حوالے سے مزید معلومات پر مبنی فیصلے کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔‘

اس تحقیق کے لیے محققین نے 23 صحت مند بالغ افراد کو ناشتے میں 10 گرام نمکین مکھن، چیڈر پنیر کے 1.5 ٹکڑے اور 250 ملی لیٹر پورا دودھ اور یا تو ہائی فلیونول کوکو یا کم فلیونول کوکو مشروب کے ساتھ دو مکھن دیے۔

آٹھ منٹ کے آرام کے بعد گروپ کو دماغی ریاضی کا ٹیسٹ مکمل کرنے کے لیے کہا گیا جس کی رفتار آٹھ منٹ تک بڑھ گئی ، جب انہیں غلط جواب ملا تو انہیں خبردار کیا گیا۔

آرام اور ٹیسٹ کے دوران سائنس دانوں نے بازو میں خون کے بہاؤ، دل کی سرگرمی اور جسم میں آکسیجن کی پیمائش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے یہ دریافت کیا کہ سٹڑیس والے کام نے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں نمایاں اضافہ کیا، جو کہ اسی قسم کے سٹریس کے مشابہ ہے جو روزمرہ زندگی میں پیش آ سکتا ہے۔

محققین نے یہ بھی پایا کہ جب لوگوں نے تناؤ کے دوران چکنائی والی غذائیں اور کم فلیوانول والے مشروبات پیے، تو اس سے خون کی شریانوں کی کارکردگی میں کمی آئی، اور یہ اثر ذہنی دباؤ ختم ہونے کے بعد بھی 90 منٹ تک برقرار رہا۔

’فوڈ اینڈ فنکشن‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہم کوکو مشروب میں موجود فلیوانولز نے سٹریس اور چربی کے استعمال کے بعد خون کی شریانوں کے افعال میں کمی کو روکا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو سپر مارکیٹوں میں کم سے کم پروسیسڈ کوکو پاؤڈر تلاش کرنا چاہیے اور اگر کوکو آپ کی پسند کا مشروب نہیں ہے تو دیگر طریقے بھی ہیں جن سے آپ فلیونولز کی زیادہ مقدار حاصل کرسکتے ہیں، جیسے سبز چائے، سیاہ چائے اور بیریز۔

یونیورسٹی آف برمنگھم میں بائیولوجیل سائیکالوجی کے پروفیسر اور مطالعے کے مصنف جیٹ ویلڈوئزن وان زنٹین نے مزید کہا: ’جدید زندگی سٹریس سے بھری ہوئی ہے اور ہماری صحت اور معیشت پر تناؤ کے اثرات کو اچھی طرح سے دستاویزی شکل میں موجود ہیں، لہذا ہم ذہنی دباؤ کی کچھ علامات سے خود کو بچانے کے لیے جو بھی تبدیلی کرسکتے ہیں وہ مثبت ہے۔

’جو لوگ ذہنی دباؤ میں میٹھا کھانے کی طرف مائل ہوتے ہیں یا جو وقت کی کمی یا سٹریس والے کاموں کی وجہ سے جلد ملا جانے والے کھانے پر انحصار کرتے ہیں، ان کے لیے ان چھوٹی تبدیلیوں کو اپنانے واقعی فرق پڑ سکتا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق