ارسا ایکٹ میں ترامیم: سندھ قوم پرست، سیاسی جماعتوں کے تحفظات

پی ڈی ایم کی نگران حکومت نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے قانون میں ترامیم کی تجاویز پیش کی تھیں، جن پر سندھ میں شدید ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔

یہ تصویر 27 اگست 2022 کو لی گئی تھی جس میں چند مقامی رہائشیوں کو صوبہ سندھ میں سکھر بیراج پر دریائے سندھ کے بہاؤ کا معائنہ کرتے دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے نگران وفاقی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے متعلق قانون میں ترامیم کی تجویز پر ملک کے جنوبی صوبہ سندھ کی قوم پرست اور سیاسی جماعتیں مخالفت کر رہی ہیں۔

سندھ کی قوم پرست جماعتوں اور معاشرتی گروہوں نے ارسا ایکٹ 1992 میں ترامیم کی تجویز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے چھوٹے صوبوں خصوصاً سندھ کو دریائے سندھ میں اس کے پانی سے محروم اور ملک کے سب سے طویل اور اہم دریا پر ڈیم اور متنازع نہریں تعمیر کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا ہے۔

قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز پلیجو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مجوزہ ترامیم کے خلاف سندھ کی سیاسی اور قوم پرست جماعتیں 10 ستمبر اپنا کو لائحہ عمل تیار کریں گی۔

اجلاس میں قومی عوامی تحریک، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی، جئے سندھ محاذ، تحریک انصاف سندھ، پاکستان پیپلز پارٹی (ورکرز)، عوامی جمہوری پارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے رنہما شرکت  کریں گے۔

 انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا)

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) پاکستان میں ایک دریائے سندھ کے پانیوں کی ملک کی چاروں اکائیوں کے درمیان منصفانہ تقسیم کی نگرانی کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے، جس کا قیام 1992 میں پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔

ارسا کے قیام کا مقصد 1991 میں وفاق اور چاروں صوبوں کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم کے معاہدے (واٹر ایپورشمنٹ اکارڈ) کے مطابق صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانیوں کی تقسیم کا کنٹرول اور نگرانی ہے۔ 

ارسا موسمی طور پر دستیاب رسد کی بنیاد پر پانی کی تقسیم کی نگرانی کرتا ہے۔ 

ارسا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم

فروری 2024 کے انتخابات سے قبل پی ڈی ایم کی نگران حکومت نے ارسا ایکٹ 1992 میں ترامیم تجاویز پیش کی گئی تھیں، جو ان کے مخالفین کے خیال میں اتھارٹی کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرتے ہوئے اسے وفاق کے ماتحت بنا دیں گی۔

موجودہ ارسا اایکٹ کی شق چار کے مطابق ارسا چار صوبوں اور وفاق کے نمائندوں پر مشتمل اتھارٹی ہے، جب کہ اس کے چیئرمین کے لیے وفاقی اکائیاں باری باری نامزدگیاں کرتے ہیں۔  

ایکٹ کے تحت پہلا ارسا کا پہلا چیئرمیں بلوچستان، دوسرا خیبر پختونخوا، اس کے بعد پنجاب، اور چوتھے نمبر پر سندھ اور آخر میں وفاقی حکومت کا نامزد کردہ شخصیت ہو گی۔

 قانون کے مطابق چیئرمین ارسا کی مدت ایک جب کہ صوبوں کے اراکین کی تین تین سال مقرر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترامیم میں ارسا ایکٹ کی شق چار کی ذیلی شق دو میں تبدیلی کر کے ’نائب چیئرمین‘ کا عہدہ شامل کیا جا رہا ہے، جب کہ اراکین کا باری باری ایک ایک سال کے لیے نائب چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ 

مجوزہ ترمیم کے مطابق نفاذ کے بعد ارسا کا پہلا نائب چیئرمین وزیر اعلیٰ بلوچستان کا نامزد رکن ہو گا۔

مجوزہ ترامیم میں چیئرمین ارسا کے عہدے پر وزیراعظم کے نامزد وفاقی حکومت کے گریڈ 21 کے افسر کی تعیناتی کی سفارش کی گئی ہے، جب کہ سربراہ کی مدت ملازمت بھی چار سال ہو گی۔

ارسا ایکٹ کی شق آٹھ کی ذیلی شق ایک ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ اتھارٹی، واپڈا یا کسی صوبائی آبپاشی کے محکموں کی آرا میں اختلاف کی صورت میں اتھارٹی کی رائے کو فوقیت حاصل ہو گی۔

ترامیم کی مخالفت

قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کا کہنا تھا کہ چیئرمین ارسا کا انتخاب اراکین کے بجائے براہ راست وزیراعظم کو دینے کی تجویز ہے، جس سے اتھارٹی وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ تجاویز کا قانون کا حصہ بننے سے ارسا ایک متنازع ادارہ بن جائے گا، جس کا ثبوت مجوزہ ترامیم کا فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے بجائے وفاقی حکومت کا پیش کرنا ہے۔

’اگر ایسا ہوا یہ غیر انسانی اور غیر اسلامی ہو گا کیوں کہ اسلام کے مطابق کسی دریا کے پانی پر اس کی آخر علاقوں کا زیادہ حق ہوتا ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کی منطوری کی صورت میں چھوٹے صوبے خصوصاً سندھ اپنے حصے کے پانی سے محروم کر دیا جائے گا۔  

اس سلسلے میں انڈس ریور اتھارٹی سسٹم (ارسا) کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ترجمان ارسا محمد خالد ادریس رانا نے کہا کہ تاحال صرف تجاویز سامنے آئی ہیں اور ابھی تک کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔

’فقط ڈرافٹ بنا ہے، یہ ڈرافٹ اسمبلی میں جائے گا، جہاں اس پر بحث ہو گی۔ اس کے بعد یہ سینیٹ میں جائے گا اور وہاں سے منظوری ہو گی۔ جس کے رولز بنیں گے اور اس کے بعد ایکٹ میں ترمیم ممکن ہے۔‘

خالد ادریس رانا کے مطابق: ’مجوزہ ترامیم پر احتجاج کرنے والے لوگ ڈرافٹ پڑھ لیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تجاویز قومی اسمبلی میں رد کر دی جائیں یا سینیٹ سے منظور نہ ہو سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان